بے سایہ محبوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم (دوسری اور آخری قسط)
* مولاناکاشف شہزاد عطاری مدنی
ماہنامہ اگست2021ء
سرکارِ دوعالَم ، نورِ مُجسَّم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی یہ امتیازی شان ہے کہ سورج ، چاند اور چراغ کی روشنی میں آپ کا سایہ نہیں ہوتا۔ گزشتہ شمارے میں اس موضوع پر کئی دلائل پیش کئے گئے تھے ، آئیے! اس موضوع سے متعلق کچھ مزید باتیں پڑھ کر اپنا ایمان تازہ کرتے ہیں :
سایہ کیوں نہیں تھا؟ اےعاشقانِ رسول! علمائے اسلام نے اللہ کے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے جسمِ اقدس کا سایہ نہ ہونے کی جو مختلف ایمان افروز حکمتیں بیان فرمائی ہیں ان میں سے 4 ملاحظہ فرمائیے :
(1)رحمتِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے نور ہونے کی وجہ سے آپ کا سایہ نہیں تھا۔ [1]
کیا تم کو نورِ مُجَسَّم خدا نے زمیں پر نہیں پڑتا سایہ تمہارا[2]
(2)سایہ نہ ہونا آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی نبوت کی نشانیوں اور علامات میں سے ہے ، چنانچہ بعض بزرگانِ دین نے عدمِ سایہ کو نبوت کی علامات اور نشانیوں کے باب میں ذکر فرمایا ہے۔ [3]
(3)حضرت سیّدُنا حکیم ترمذی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : مَعْنَاہُ لِئَلَّایَطَاَعَلَیْہِ کَافِرٌ فَیَکُوْنَ مَذِلَّۃً لَہٗ یعنی اس میں حکمت یہ تھی کہ کوئی کافر سایۂ اقدس پر پاؤں نہ رکھے کیونکہ اس میں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی توہین ہے۔ [4]
حکایت : سیّدُنا عبداللہ بن عمر رضی اللہُ تعالیٰ عنہما تشریف لئے جاتے تھے ، ایک یہودی حضرت کے گِرد (یعنی آس پاس) عجب حرکات اپنے پاؤں سے کرتا جاتا تھا۔ اُس سے دریافت فرمایا (کہ ایسا کیوں کرتے ہو؟) بولا : بات یہ ہے کہ اورتوکچھ قابو ہم تم پر نہیں پاتے ، جہاں جہاں تمہارا سایہ پڑتا ہے اُسے اپنے پاؤں سے روندتا (یعنی کُچَلتا) چلتا ہوں۔ ایسے خبیثوں کی شرارتوں سے حضرت حق عَزَّجَلَا لُہٗ (یعنی اللہ پاک) نے اپنے حبیب اکرم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم کو محفوظ فرمایا۔ [5]
(4)حضرت سیّدُنا شیخ احمد فاروقی سر ہِندی مُجَدِّدِ اَلْفِ ثانی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : “ دَر عالَمِ شہادت سایۂ شخص اَز شخص لطیف تر اَست و چُوں لطیف اَز وَے دَر عالَم نَباشَد اُو را سایہ چہ صُورت دارد “ یعنی دنیا میں ہر شخص کا سایہ اس شخص سے زیادہ لطیف و پاکیزہ ہوتا ہے اور سرورِ کونین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے زیادہ لطیف کوئی چیز نہیں اس لئے آپ کا سایہ نہیں ہوسکتا۔ [6]
پیارے اسلامی بھائیو! عموماً انسان کا جسم گَرد و غبار ، میل کچیل وغیرہ سے میلا اور گندگی و نَجاست سے آلودہ ہوجاتا ہے لیکن انسان کا سایہ ان چیزوں سے میلا نہیں ہوتا ، لہٰذا ہر شخص کا سایہ اس سے زیادہ لطیف و پاکیزہ ہوتا ہے۔ نور والے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے نورانی جسم سے زیادہ لطیف و پاکیزہ کوئی چیز نہیں اس لئے آپ کا سایہ بھی نہیں ہے۔
عدمِ سایہ سے متعلق علمائے کرام کی تالیفات : جن علمائے کرام نے اپنی کتابوں میں عظمت وشانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دیگر پہلوؤں کے ساتھ ساتھ عدمِ سایہ کا بھی ذکر فرمایا ان کی تعداد تو کثیر ہے ، البتہ کئی عاشقانِ رسول نے مستقل عدمِ سایہ کے عنوان پر بھی کُتُب و رَسائل اور مَقالات لکھنے کی سعادت حاصل فرمائی ہے۔ ایسے چند علمائے کرام کے اَسمائے گرامی ملاحظہ فرمائیے :
(1)اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ نے اس موضوع پر 3 لاجواب رسائل تصنیف فرمائے جن کے نام یہ ہیں : (الف)قَمَرُ التَّمَامْ فِیْ نَفْیِ الظِّلِّ عَنْ سَیِّدِ الْاَنَامْ علیہ وعلٰی اٰلہ الصّلٰوۃ والسّلام (مخلوق کے سردار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے سائے کی نفی میں کامل چاند) (ب)نَفْیُ الْفَئْ عَمَّنْ اِسْتَنَارَ بِنُوْرِہٖ کُلُّ شَیْء صلَّی اللہ علیہ وسلم (اس ذاتِ اقدس سے سائے کی نفی جن کے نور سے ہر چیز روشن ہوگئی) (ج)ھُدَی الْحَیْرَانْ فِیْ نَفْیِ الْفَیْءِ عَنْ سَیِّدِ الْاَکْوَانْ علیہ الصلٰوۃ والسلام الاتمان الاکملان (کائنات کے سردار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے سائے کی نفی کے متعلق حیرت زدہ شخص کی رہنمائی) اس کے علاوہ آپ نے مولانا حبیب علی علوی رحمۃُ اللہِ علیہ کی کتاب پر تَقْرِیظ لکھی جس میں عدمِ سایہ سے متعلق کثیر عقلی و نقلی دلائل درج فرمائے (2)شیخُ الدَّلائل حضرت علّامہ مولانا محمد عبدُالحق صِدیقی نقشبندی رحمۃُ اللہِ علیہ نے “ قُرَّۃُ عَیْنِ الصُّدُوْر “ کے نام سے اس موضوع پر رسالہ تحریر فرمایا (3)حکیمُ الاُمّت مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ (4)رَئِیسُ التحریر حضرت علّامہ مولانا ارشد القادری رحمۃُ اللہِ علیہ (5)حضرت علّامہ مولانا مفتی نوراللہ نعیمی بصیر پوری رحمۃُ اللہِ علیہ سمیت دیگر کئی عاشقانِ رسول نے بھی اس موضوع پر رسائل اور مَقالات تحریر فرمائے۔
وہ ہیں خورشیدِ رسالت نور کا سایہ کہاں اس سبب سے سایۂ خیر الوریٰ ملتا نہیں[7]
عدمِ سایہ سے متعلق 3 رضوی پھول : امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ نے عدمِ سایہ سے متعلق اپنی تحریرات میں علم و عرفان کے جو گلشن سجائے ہیں ان میں سے 3 پھولوں کی خوشبو سے اپنا ایمان تازہ کیجئے : (1)حدیث میں ہے کہ آسمانوں میں چار انگل جگہ نہیں جہاں کوئی فرشتہ اپنی پیشانی رکھے سجدہ میں نہ ہو۔ [8] (اگر) ملائکہ کے (لئے) سایہ ہوتا تو آفتاب (یعنی سورج) کی روشنی ہم تک کیونکر پہنچتی یا شاید پہنچتی تو ایسی جیسے گھنے پیڑ میں سے چھن کر خال خال بُندکیاں(یعنی اِکّا دُکّا بُوندیں) نور کے سائے کے اندر نظر آتی ہیں۔ [9] (2)جب ملائکہ کہ حُضورِ اقدس صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم کے نور سے بنے [10]سایہ نہیں رکھتے تو حضور( صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ) کہ اصلِ نور ہیں جن کی ایک جھلک سے سب مَلَک (یعنی فرشتے) بنے کیونکر سایہ سے مُنَزَّہ (یعنی پاک) نہ ہوں گے۔ عجب کہ ملائکہ (جو) مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم کے نور سے بنے بے سایہ ہوں اور مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم کہ نورِ الٰہی سے بنے ، سایہ رکھیں۔ [11] (3)ہم دعویٰ حتمی کرتے ہیں کہ اگر اس (عدمِ سایہ کے) باب میں کوئی حدیث نہ آئی ہوتی ، نہ کسی عالم نے اس کی تصریح فرمائی ہوتی ، تاہم بَمُلاحَظہ ان آیات واحادیثِ مُتکاثِرَہ مُتوافِرَہ مُتظافِرَہ کے جن سے بِالْقَطْع وَالْیقِین سراپائے سَیِّدُ الْمُرسَلِین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم کا نورِ صِرْف کانِ لَطافَت و جانِ اِضاءَت ہونا ثابت(یعنی جن کثیر آیتوں اور حدیثوں سے قطعی و یقینی طور پر سرکارِ دوعالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مبارک جسم کا سراپا نور اورلطیف ہونا ثابت ہوتا ہے انہیں دیکھتے ہوئے) ہم حکم کرسکتےکہ حضور( صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ) کے لئےسایہ نہ تھا۔ [12]
یہی منظور تھا قدرت کو کہ سایہ نہ بنے ایسے یکتا کے لئے ایسی ہی یکتائی ہو[13]
اجماعی مسئلہ : حکیمُ الاُمّت مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں : آقائے دَوعالَم حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ وسلَّم کے بے سایہ ہونے کے اتنے دلائل واقوال ہیں کہ اگر اس کو اِجماعی (مُتَّفِقہ) مسئلہ کہہ دیا جائے تو بےجا (غلط) نہ ہوگا۔ [14]
سچوں کے ساتھ ہوجائیں : اللہ پاک نےایمان والوں کویہ حکم دیا ہے : ( یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ(۱۱۹)) ترجَمۂ کنزُالعرفان : اےایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہو جاؤ۔ [15] (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ اس آیت کے تحت لکھتے ہیں : اچھوں کا سَنگ (یعنی صحبت) اختیار کرو کہ ان سے محبت رکھو ، ان کے سے عقیدے ، ان کے سے اعمال کرو کہ وہ حضرات حَقَّانِیَّت (یعنی سچّائی) کی دلیل ہیں۔ [16]
اللہ کےپیارےحبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کافرمانِ بَرَکت نشان ہے : اَلْبَرَکَۃُ مَعَ اَکابِرِ کُم یعنی برکت تمہارے بزرگوں کے ساتھ ہے۔ [17]
اے عاشقانِ رسول!اسلام کے ابتدائی دور سے آج تک تقریباً ہر دور میں بڑے بڑے علمائے کرام اور امت کے امام سرکارِ دوعالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی عدمِ سایہ کی خصوصیت کا بیان فرماتے آئے ہیں۔ ان تمام حضرات کے نام جمع کرنا اور ان کا ذکر کرنا تو کافی مشکل ہے ، حصولِ برکت کے لئے اس طویل فہرست میں سے صرف 28اکابرینِ امت کے اسمائے گرامی پیش ہیں :
(1) تابعی بزرگ حضرت سیّدُنا ذَکوان (101ھ) (2)اَمِیرُالمؤمنین فِی الحدیث حضرت سیّدُنا عبداللہ بن مبارک مَروَزِی (181ھ) (3)امام محمد بن علی حکیم ترمذی شافعی (285ھ) (4)امام حسین بن محمدراغب اصفہانی (450ھ) (5) اَبُوالْفَضْل امام قاضی عیاض مالکی (544ھ) (6)علّامہ نظامی گنجوی (594ھ) (7) امام عبدالرّحمٰن ابن جوزی (597ھ) (8)عارفِ کامل مولانا جلالُ الدّین رومی (672ھ) (9)حافِظُ الدّین حضرت علّامہ ابوالبرکات عبداللہ بن احمد نَسَفِی حَنَفِی (710ھ) (10)امام اَبُوالْحَسَن علی بن عبدُالکافی سُبکی شافعی (756ھ) (11)حضرت خواجہ سیّد نَصِیرُ الدِّین محمود چراغ دہلوی چشتی نظامی (757ھ) (12)شَرَفُ الدِّین ابومحمد امام اسماعیل مُقْرِی یمنی شافعی (839ھ) (13)نُورُالدّین مولانا عبدالرحمٰن جامی (898ھ) (14)امام جلالُ الدّین عبدالرحمٰن بن ابوبکر سُیوطی شافعی (911ھ) (15)شارحِ بخاری امام احمد بن محمد قَسطلانی (923ھ) (16)شیخُ الاسلام امام زکریا انصاری شافعی (928ھ) (17)امام محمد بن يوسف صالحی شامی (942ھ) (18)امام حسین بن محمد دِیاربِکری (966ھ) (19)عارف باللہ امام عبدالوہا ب شعرانی (972ھ) (20)امام احمد بن حجر مکی ہیتمی شافعی (974ھ) (21)مَلِکُ الْمُحَدِّثین شیخ محمد بن طاہر صدیقی پٹنی قادری (986ھ) (22)علّامہ علی بن سلطان قاری حنفی (1014ھ) (23)امام محمد عبدالرؤف مُناوی شافعی (1031ھ) (24)حضرت شیخ احمدسرہِندی فاروقی نقشبندی مُجَدِّدِ الفِ ثانی (1034ھ) (25)علّامہ علی بن بُرہانُ الدِّین حَلبی (1044ھ) (26)شیخِ مُحَقِّق شیخ عبدالحق محدث دہلوی (1052ھ) (27)امام احمد بن محمد خَفَاجی مصری حنفی (1069ھ) (28)امام محمد بن عبدالباقی زُرقانی مالکی (1122ھ)۔ رضوان اللہ علیہم اجمعین
کیسے آقاؤں کا بندہ ہوں رضا بول بالے مِری سرکاروں کے[18]
اے ہمارے پیارے اللہ پاک! ہمیں اپنے ان محبوب بندوں جیسے عقائد و اعمال اختیار کرنے کی توفیق عطا فرما اور عظمت و شانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے معاملے میں ہر قسم کے شیطانی وسوسوں سے نجات عطا فرما۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* فارغ التحصیل جامعۃُ المدینہ ، ماہنامہ فیضانِ مدینہ ، کراچی
[1] انموذج اللبیب ، ص213
[2] قبالۂ بخشش ، ص30
[3] الشفا ، 1 / 368
[4] سبل الہدیٰ والرشاد ، 2 / 90
[5] فتاویٰ رضویہ ، 30 / 701
[6] مکتوباتِ امام ربانی ، 2 / 75 ، مکتوب : 100
[7] سامانِ بخشش ، ص132
[8] ترمذی ، 4 / 140 ، حدیث : 2319
[9] فتاویٰ رضویہ ، 30 / 693
[10] الجزء المفقود من المصنف لعبدا لرزاق ، ص63 ، حدیث : 18
[11] فتاویٰ رضویہ ، 30 / 693
[12] فتاویٰ رضویہ ، 30 / 746
[13] ذوقِ نعت ، ص205
[14] رسائلِ نعیمیہ ، ص105
[15] پ11 ، التوبۃ : 119
[16] تفسیر نعیمی ، 11 / 129
[17] مستدرک ، 1 / 238 ، حدیث : 218
[18] حدائقِ بخشش ، ص360۔
Comments