تذکرۂ صالحات
حضرت اُمِّ عَطیَّہ بنتِ حارث رضی اللہُ عنہ
* مولانا بلال سعید عطّاری مدنی
ماہنامہ اگست2021ء
حضرت اُمِّ عَطیّہ رضی اللہُ عنہا کا شمار جلیلُ القدر انصاری صحابیات میں ہوتا ہے ، آپ کا اصل نام نُسیبہ بنتِ حارث ہے ، لیکن آپ کنیت سے زیادہ مشہور ہیں۔
علمی شان : آپ رضی اللہ عنہا عالمہ ، فاضلہ اور فقیہہ تھیں۔ [1] آپ سے 40 احادیث مروی ہیں ، جن میں سے 6 متفق علیہ یعنی امام بخاری و امام مسلم رحمۃُ اللہِ علیہما دونوں نے روایت کی ہیں اور ایک ایک روایت دونوں نے الگ الگ لی ہے۔ [2] نیز صحابۂ کرام اور تابعین کی بڑی جماعت نے آپ سے روایات لیں۔ [3]
محبت ِ رسول : آپ کو رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ذاتِ بابرکت سے اس قدر محبت تھی کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ذکر کرتے وقت “ یا رسولَ اللہ ! میرے والد آپ پر قربان “ جیسے کلمات استعمال کرتیں۔ [4]
ہدیہ رسول : ایک بار آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ان کو صدقے کی بکری عطا فرمائی ، حضرت اُمِّ عطیہ نے اس کو قبول کیا اور اس میں سے کچھ حصّہ حضرت عائشہ صدیقہ کی خدمت میں پیش کردیا ، جب آقا کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم گھر میں تشریف لائے اور پوچھا : کیا تمہارے پاس کچھ ہے تو سیدہ عائشہ صدیقہ نے عرض کی : گھر میں اور تو کچھ نہیں لیکن اُمِّ عطیہ کو آپ نے جو بکری دی تھی اس کا گوشت انہوں نے بھیجا ہے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : صدقہ تو اس کے حقدار تک پہنچ چکا۔ (اور ہمارے پاس یہ ہدیہ ہے)[5]
سعادتِ عظمیٰ : آپ رضی اللہُ عنہا کو یہ عظیم سعادت حاصل ہے کہ آپ نے آقائے کائنات صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سب سے بڑی شہزادی حضرتِ زینب رضی اللہُ عنہا کو غسلِ میت دیا اور اس کا طریقہ خود آقا کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے آپ کو سکھایا۔ علامہ بدرُ الدین عینی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : حضرت اُمِّ عطیہ نے اس غسل کے طریقے کو اس طرح واضِح طور پر بیان فرمایا ہےکہ آپ کی بیان کردہ روایات عورتوں کے غسل میں اصل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ بلکہ حضرت اِبْنِ مُنْذر رحمۃُ اللہِ علیہ کا قول ہے کہ غُسْلِ مَیِّت کے حوالے سے حضرت اُمِّ عَطِیَّہ کی بیان کردہ روایت سے بہتر کوئی رِوایَت نہیں اور اسی کو عُلَمائے کرام نے اختیارفرمایا ہے۔ [6]
آپ کے معمولات : حضرت اُمِّ عطیہ رضی اللہُ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی معیت میں سات غزوات میں شرکت کی ، میں مجاہدین کے پیچھے رہتی ، ان کا کھانا پکاتی ، زخمیوں کی دوا وغیرہ کا اہتمام کرتی نیز بیماروں کے لئے انتظام کرتی تھی۔ [7]
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* فارغ التحصیل جامعۃُ المدینہ ، شعبہ فیضان صحابیات و صالحات ، المدینۃ العلمیہ (اسلامک ریسرچ سینٹر) ، کراچی
[1] سير اعلام النبلاء ، 3 / 545 ، رقم : 155
[2] تہذيب الاسماء واللغات ، 2 / 364
[3] طبقات ابن سعد ، 8 / 333 -الاستیعاب ، 4 / 502
[4] نسائی ، ص70 ، حدیث : 388
[5] مسلم ، ص419 ، حدیث : 2490
[6] عمدة القاری ، 6 / 53 ، تحت الحدیث : 1253
[7] مسلم ، ص778 ، حدیث : 4690
Comments