نئے لکھاری
ماہنامہ اگست2021ء
امام حسین رضی اللہُ عنہ کی 5 خصوصیات و فضائل
بنتِ عمران (کراچی)
حضرت امام حسین رضی اللہُ عنہ کی ولادت 5 شعبانُ المعظم 4 ہجری کو حضرت علی رضی اللہُ عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہُ عنہا کے گھر مدینۂ منورہ میں ہوئی۔ آپ کا اسمِ مبارک حسین رکھا گیا۔ آپ کی کُنْیت ’’ابو عبدُاللہ‘‘ اورآپ کے ا لقاب “ سِبۡطُ رَسُوۡلِ اللہِ‘‘(یعنی رسولِ خدا کے نواسے) اور ’’ رَیْحَانَۃُ الرَّسُوْل‘‘(یعنی رسولِ خدا کے پھول)ہیں۔ آپ نے دس محرمُ الحرام 60 ہجری کو میدانِ کربلا میں باطل کو خاک میں ملا کر جام شہادت نوش فرمایا۔ امام عالی مقام کئی خصوصیات و فضائل کے حامل ہیں ، ان میں سے چندیہ ہیں۔
(1)بچپن ہی میں شہادت کی شہرت : حضرت سیّدنا امام حسین رضی اللہُ عنہ کے بچپن ہی میں آپ کی شہادت کی خبر پھیل گئی تھی ، چنانچہ ایک مرتبہ حضرت سیّدنا جبریل امین علیہ السّلام رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر تھے کہ امام حسین رضی اللہُ عنہ بھی حاضر بارگاہ ہوگئے اور آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مبارک گود میں بیٹھ گئے۔ جبریل امین علیہ السّلام نے عرض کی : “ آپ کی اُمّت آپ کے اس بیٹے کو شہید کردے گی ۔ “ جبریل امین علیہ السّلام نے بارگاہ رسالت میں مقامِ شہادت کا نام بتاکر مٹی بھی پیش کی ۔ (معجم کبیر ، 3 / 108 ، حدیث : 2817 ماخوذاً)
(2)پیدائش کے بعد نبی پاک کی کرم نوازیاں : امام حسین رضی اللہُ عنہ کی ایک خاص فضیلت یہ بھی ہے کہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے لختِ جگر حضرت ابراہیم رضی اللہُ عنہ کو ان پر قربان فرمایا چنانچہ مروی ہے کہ ایک روز حضور پرنُور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دائیں زانو مبارک پر امام حسین اور بائیں پر حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صاحبزادے حضرت ابراہیم رضی اللہُ عنہ بیٹھے تھے ، حضرت جبریل علیہ السّلام نے حاضر ہوکر عرض کی : ان دونوں کو اللہ پاک حضور کے پاس(اکٹھا) نہ رکھے گا ایک کو اختیار فرمالیجئے۔ حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے امام حسین رضی اللہُ عنہ کی جدائی گوارا نہ فرمائی ، تین دن کے بعد حضرت ابراہیم رضی اللہُ عنہ کا وصال ہو گیا ۔ اس واقعہ کے بعد حضور نبیِّ رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جب آپ كو آتا دیکھتے تو بوسہ دیتے ، سینے سے لگالیتے اور فرماتے : “ فَدَيْتُ مَنْ فَدَيْتُهُ بِابْنِي اِبْرَاهِيمَ “ یعنی میں اس پر قربان کہ جس پر میں نے اپنا بیٹا ابراہیم قربان کیا ۔ (تاریخ بغداد ، 2 / 200)
(3)نورانی پیشانی و رخسار : آپ کی ایک خصوصیت بیان کرتے ہوئے حضرت علّامہ جامی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : حضرت امامِ عالی مقام سیِّدُنا امامِ حُسین رضی اللہُ عنہ کی شان یہ تھی کہ جب اندھیرے میں تشریف فرما ہوتے تو آپ کی مبارَک پیشانی اور دونوں مقدّس رُخسار (یعنی گال) سے انوار نکلتے اور قرب و جوار ضِیا بار (یعنی اطراف روشن) ہو جاتے۔ (شواہد النبوۃ فارسی ، ص228 )
(4)رنگ و جسامت میں نبیِّ پاک سے مشابہت : آپ رضی اللہُ عنہ نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مشابہ تھے جیساکہ حضرت علیُّ المرتضیٰ شیرِ خدا کرّم اللہُ وجہہ الکریم فرماتے ہیں : جس کی یہ خواہش ہو کہ وہ ایسی ہستی کو دیکھے جو چہرےسے گردن تک سرکار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سب سے زیادہ مُشابہ ہو وہ حَسن بن علی رضی اللہ عنہما کو دیکھ لے اور جس کی یہ خواہش ہو کہ ایسی ہستی کو دیکھے جو گردن سے ٹخنے تک رنگ و جَسامت میں نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سب سے زِیادہ مُشابہ ہو وہ حُسین بن علی رضی اللہ عنہما کو دیکھ لے۔ (معجم کبیر ، 3 / 95 ، حدیث : 2768)
(5)یومِ عاشورہ کا آپ کی نسبت سے شہرت پانا : اسلام میں یومِ عاشوراء یعنی 10 محرمُ الحرام کو بہت اہمیت حاصل ہے اس دن بہت سے واقعات رونما ہوئے مثلا حضرت نوح علیہ السّلام کی کشتی کا کوہِ جودی پر ٹھہرنا ، حضرت یونس علیہ السّلام کا مچھلی کے پیٹ سے باہر آنا ، حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی ولادت ، حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی ولادت ، حضرت موسیٰ علیہ السّلام اور اُن کی قوم کا دریائے نیل سے پار ہونا اور فرعون کا اپنی قوم سمیت (دریائے نیل میں ) غرق ہونا وغیرہ لیکن اس دن کو سب سے زیادہ شہرت اس بات سے ملی کہ اسی دن سیِّدُنا امامِ حسین رضی اللہُ عنہ اور آپ کے خاندان اور رفقاء کو بھوک اور پیاس کی حالت میں میدانِ کربلا میں نہایت بے رحمی کے ساتھ شہید کیا گیا۔ 10 محرمُ الحرام آپ کی شہادت کی نسبت سے بہت مشہور ہوگیا ۔
Comments