دوسروں کے وقت کی قدر کیجئے

فریاد

دوسروں کےوقت کی قدرکیجئے

دعوتِ اسلامی کی مرکزی مجلسِ شوریٰ کے نگران مولانا محمد عمران عطاری

ماہنامہ اگست2021ء

 جس طرح ہمارے لئے ہمارا وقت قیمتی اور اہم ہے کہ ہم اس کی قدر کریں ، اسی طرح دوسروں کے لئےبھی ان کاوقت قیمتی اور اہم ہوتا ہے۔ لہٰذا ہمیں اپنے وقت کی قدر کے ساتھ ساتھ دوسروں کے وقت کی بھی قدر کرنی چاہئے اور ہر اس کام سے بچنا چاہئے جس سے دوسروں کا وقت ہماری وجہ سے ضائع ہوتا ہو۔

خطیب صاحبان اورمبلغین سےعرض ہے کہ جمعہ کےدن خطیب صاحب کاخطاب سننےاوریوں ہی سنّتوں بھرےاجتماع میں مبلغ کابیان سننے کے لئے آنے والے لوگوں میں سے کوئی 10 سے 15 منٹ کا سفر کرکے آتا ہے تو کوئی آدھے گھنٹے اور ایک گھنٹے کا ، بسااوقات تو اجتماعات اور تربیتی نشستوں میں شرکت کے لئے لوگ دور دراز کا سفر مثلاً ایک دن کا یا ایک دن اور ایک رات کا یا پھر دو تین دنوں کا سفر کرکے آئے ہوتے ہیں ، ان میں سے کئی لوگ ایسے بھی ہوتے ہوں گے جو صرف خطاب و بیان سننے کے لئے اپنا کام کاج چھوڑکر آتے ہوں گے ، ایسی صورتحال میں ایک خطیب صاحب اورمبلغ کی یہ ذمہ داری بنتی ہےکہ وہ لوگوں کے وقت کی قدر کرتے ہوئے ان کے سامنے صرف معتمد اور مستند باتیں ہی بیان کریں ، اور انہیں ان کی ضروریات ، پروفیشن اور طرزِ معاشرت کے مطابق دینی تعلیمات پہنچائیں ، اس کے لئے معتبر علمائے اہلِ سنّت کی کتابوں کامطالعہ کریں ، مکتبۃُ المدینہ سےجاری ہونے والی کتابیں بھی اس حوالے سے اِن شآءَ اللہ آپ مفید پائیں گے ، آپ حضرات کو اپنے بیان کے لئے مطالعہ کتنا اور کتنی دیر کرنا چاہئے اس کے لئے آپ یہ سوچیں کہ آپ کا بیان سننے کے لئے اگر 50افراد بھی آتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک کے آنے جانے اور بیان سننے میں دو دو گھنٹے لگتے ہوں تو مجموعی طور پر  100گھنٹے ہوئے ، تو ان کے 100گھنٹوں کے مقابلے میں ان کودین سکھانے کے لئے آپ حضرات کو کتنی دیر اور کتنا مطالعہ کرنا چاہئے ، 15 منٹ یا 15 گھنٹے؟ 15لائنیں پڑھنی چاہئیں یا 15 صفحات یا پھر  15کتابیں ، اس کا فیصلہ آپ خودہی فرمالیں۔ میری بس اتنی عرض ہے کہ آپ کے پاس آنے والے جب اپنے گھروں کو لوٹیں تو انہیں یہ نہ لگے کہ ہمارا وقت ضائع ہوگیا ، کچھ سیکھنے کو نہ ملا یا کچھ نیا سیکھنے کو نہ ملا۔

مختلف دنیاوی اور دینی انسٹیٹیوٹس اور اداروں میں پڑھانے والے ٹیچرزسےعرض ہےکہ آپ تو قوم کے معمار ہیں ، مستقبل میں ملک و ملت کو سنوارنے والے اپنے وقت اور اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ آپ کو دیکھتے اور آپ کی باتیں سنتے ہوئے گزارتے ہیں ، ان میں سے کئی تو آپ سے علم حاصل کرنے کے لئے اپنے گھروں اور اپنے وطن سے دور ، روکھی سوکھی پر گزارہ کرکے وقت گزارتے ہیں ، کئی کئی دنوں اور مہینوں تک صرف آپ سے علم حاصل کرنے کے لئے اپنوں سے دور رہتے ہیں ، ایسی صورتحال میں آپ کی ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے کہ ان اسٹوڈنٹس کے وقت کی قدر کریں ، ان کی پڑھائی پر مکمل توجہ دینے کے ساتھ ساتھ ان کے اخلاقیات سنوارنے کی بھی بھرپور کوشش کریں۔ آپ کے پڑھائے ہوئے سے انہیں یہ نہ لگےکہ شاید استاد صاحب پڑھانے کے لئے تیاری نہیں کرتے ، بس اپنا وقت پورا کرنے کے لئے کلاس میں آجاتے ہیں ، یا پھر استاد صاحب کو تو بس اپنی سیلری سے مطلب ہے ، اسٹوڈنٹس کا فیوچر سفید ہوتا ہو یا سیاہ اس سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں۔

محترم مبلغین و معلّمین! جب بھی دوسروں کو کچھ سکھانا اور بیان کرنا ہو تو اس کے لئے پہلے تیاری ضرور کریں اور اس میں بھی پہلے آپ یہ دیکھیں کہ آپ کا بیان سننے والے کون اور کس لیول کے لوگ ہوں گے ، علما میں بیان کرنے کے لئے مواد الگ ہوگا جبکہ عام لوگوں میں بیان کی جانے والی باتیں الگ ہوں گی ، دنیوی اور دینی طور پر پڑھے لکھے لوگوں میں الگ الگ طرز کا بیان ہوگا۔

مواد کی اہمیت و ضرورت کے ساتھ ساتھ اس بیان کرنے کی ترتیب کا بھی خاص خیال رکھنا ضروری ہے۔ تمہید کیا بنانی ہے اور موضوع کو کہاں تک نبھانا ہے ، ترغیب کہاں بیان کرنی ہے ، اور جس مقصد کے حصول کے لئے سامعین کو جمع کیا گیا وہ کہاں واضح کرنا ہے اسے یوں سمجھئے کہ جس طرح بیج بونے کے لئے پہلے زمین میں ہَل چلانا ، اسے نرم کرنا ہوتا ہے پھر جاکر بیج ڈالا جاتا ہے ، بیان کی ترتیب میں بھی اس بات کا خیال رکھنا ہوتا ہے۔ جب آپ دو سے تین مرتبہ اس طرح تیار کرکے بیان کریں گے تو اللہ پاک کی رحمت سے پھر آپ کو آئندہ اس طرح بیانات کرنے میں زیادہ دقت پیش نہیں آئے گی۔

اسی طرح جہاں دوسروں کے وقت کی قدر کے لئے مطالعہ کرنا ، مزید اور مزید سیکھتے اور پڑھتے رہنا ضروری ہے اسی طرح اپنے علم پر عمل کرنا بھی بہت ضروری ہے ، یہ بھی حقیقت ہے کہ اپنے علم پر عمل کرنا جہاں ہمارے اپنے لئے مفید ہے وہیں دوسروں کے لئے بھی مفید ہے۔ مبلغین ، واعظین اور اساتذہ جس قدر باعمل ہوں گے لوگ بھی اسی قدر ان کی نصیحتیں قبول کریں گے اور اس کے ساتھ ساتھ دیگر فوائد بھی حاصل ہوں گے جیسا کہ حدیثِ پاک میں ہے : مَنْ عَمِلَ بِمَا عَلِمَ عَلَّمَہُ اللہُ مَا لَمْ یَعْلَم یعنی جو شخص اپنے علم پر عمل کرے ، اللہ اسے وہ بھی سکھادیتا ہے جو وہ نہیں جانتا۔ [1]

نیز اگر آپ غیرِ عالم ہیں اوربیان کرناچاہتےہیں تو ضروری ہے کہ آپ درج ذیل ہدایات پر بھی عمل کریں۔

میرے شیخِ طریقت امیرِاہلِ سنّت حضرت علّامہ مولانا محمد الیاس عطّاؔر قادری دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ ارشاد فرماتے ہیں : غیرِ عالِم کے بیان کی آسان صُورت یہ ہے کہ عُلَمائے اہلِ سنّت کی کتابوں سے حسبِ ضرورت فوٹو کاپیاں کرواکر اُن کے تَراشے اپنی ڈائری میں چسپاں کرلے اور اس میں سے پڑھ کر سنائے۔ منہ زَبانی کچھ نہ کہے نیز اپنی رائے سے ہرگز کسی آیتِ کریمہ کی تفسیر یا حدیثِ پاک کی شَرح وغیرہ بیان نہ کرے کیوں کہ تفسیر بِالرّائے[2] حرام ہے اور اپنی اٹکل کے مطابِق آیت سے استِدلال یعنی دلیل پکڑنا اور حدیثِ مبارَک کی شرح کرنا اگرچِہ دُرُست ہو تب بھی شرعاً اِس کی اجازت نہیں۔ فرمانِ مصطفےٰ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  ہے : جس نے بِغیر علم قراٰن کی تفسیر کی وہ اپنا ٹھکانہ جہنّم بنائے۔ [3] غیرِ عالم کے بیان کے بارے میں رہنُمائی کرتے ہوئے میرے آقائے نِعمت ، اعلیٰ حضرت ، مجدِّدِ دین وملّت مولانا شاہ امام احمد رضاخان  رحمۃُ اللہِ علیہ  فرماتے ہیں : جاہِل اُردو خواں اگر اپنی طرف سے کچھ نہ کہے بلکہ عالِم کی تصنیف پڑھ کر سنائے تو اِس میں حَرَج نہیں۔ [4]

میری تمام عاشقانِ رسول سے فریاد ہے!اپنی دنیا و آخرت کی بہتری کے ساتھ ساتھ دوسروں کی بھی دنیا و آخرت بہتر کرنے کی کوششوں میں لگے رہیں ، درس و بیان اور دیگر سیکھنے سکھانے کی نشستوں کو فضولیات اور وقت ضائع کرنے والے کاموں سے پاک کریں ، اپنے وقت کی قدر کے ساتھ ساتھ دوسروں کے وقت کی بھی قدر کریں۔ اللہ پاک ہمیں عمل کی توفیق نصیب فرمائے۔       اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم



[1] حلیۃ الاولیاء،10/13،حدیث:1432

[2] تفسير بالرائے کرنے والا وہ کہلاتا ہے جس نے قرآن کی تفسیر عقل اور قیاس (اندازہ )سے کی، جس کی نقلی(یعنی شرعی)دلیل وسند نہ ہو۔

[3] ترمذی،4/439،حدیث:2969

[4] فتاوٰی رضويہ،23/409


Share