متفرق
کربلا کا پیغام مسلمانانِ عالم کے نام
* مولانا عطاء النبی حسینی مصباحی
ماہنامہ اگست2021ء
حق و باطل کا آمنا سامنا تخلیقِ آدم سے ہی چلا آرہا ہے ، جب اللہ کریم نے حضرت آدم علیہ السّلام کو پیدا فرمایا تو ابلیس نے تکبر میں آکر مخالفت کی ، نتیجۃً ہمیشہ ہمیشہ کے لئے لعین ، مردود اور جہنمی ٹھہرا ، حضرت آدم علیہ السّلام کے دنیا میں تشریف لانے سے آج تک ہزاروں ایسے محاذ ہوئے جن میں نظریاتی ، فکری اور عملی طور پر حق و باطل ایک دوسرے کے مدمقابل آئے ، اللہ کریم نے حق کو فتح عطا فرمائی اور باطل جلد یا بدیر ہر بار ذلیل و رُسوا ہوا ، انہی معرکوں میں سے ایک بہت دردناک اورتاریخِ اسلام کا ایک اہم ترین معرکہ میدانِ کربلا کا ہے ، یہ معرکہ حق وباطل کا ایک ایسا معرکہ تھا کہ تب سے آج تک حق کے لئے حسینیت اور باطل کے لئے یزیدیت کا نام بولا اور لکھا جانے لگا ہے۔ امامِ عالی مقام حضرت امام حسین رضی اللہُ عنہ اہلِ کوفہ کے مسلسل خُطوط بھیجنے اور بلانے کے بعد جب کوفہ پہنچے اور پھر اہلِ کوفہ کی بے وفائی اور یزیدیوں کی شقاوت و لالچ دنیا کے سبب معرکہ کربلا رونما ہوا جس میں خانوادہ نبوی اور دیگر جاں نثاروں پر مشتمل مٹھی بھر قافلے کو یزیدیوں نے انتہائی بےدردی کے ساتھ شہید کردیا ، قربان جائیے ان نفوسِ قدسیہ کی حق پرستی پر کہ جان دے دی ، گھر لٹا دیا ، اپنی آنکھوں سے جگر کے ٹکڑوں کی شہادت کا دردناک منظر دیکھنا تو برداشت کرلیا لیکن باطل کے سامنے جھکنا گوارا نہ کیا۔
دینِ اسلام کےلئے یہ جو اتنی بڑی قربانی دی گئی اور امامِ عالی مقام نے اپنے ہاتھوں سے اپنے خاندان کے نوجوان شہداء کےزخموں سے چُور لاشے اٹھائے ، اس سے ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ
(1)خدمتِ دین اور دعوتِ دین میں کبھی بھی پس و پیش کا شکار نہ ہونا بلکہ جب بھی موقع میسر آئے دین کے نام پر چل پڑنا اور دین کی سربلندی کے لئے ہر جائز کوشش کرنا۔
(2)دین کی حفاظت میں اپنے احباب ، گھربار بلکہ اپنی جان بھی راہِ خدا میں نذرانہ کرنا پڑے تو پیچھے مت ہٹنا بلکہ آگے بڑھ کر دین کی حفاظت کے لئے حق و باطل کے درمیان مضبوط دیوار کی مانند کھڑے ہوجانا اور ہر خواہش و آسائش کے مقابلے میں دین و ایمان ہی کو ترجیح دینا۔
(3)اگر دنیا کی اس مختصر سی زندگی پر مصائب و آلام اور تکالیف کے تاریک بادل بھی چھا جائیں تب بھی احکامِ خداوندی سے غفلت مت برتنا بلکہ شریعت پر عمل کی شمع سے ان تاریکیوں کو کافور کرنا۔
(4)نماز کی پابندی ہر حال میں کرنا ، گھر میں ہو یا سفر میں ، امن میں ہو یا میدانِ جنگ میں ، ہر صورت پیشانی کو بارگاہِ خدا میں جھکنے کا عادی رکھنا۔
(5)خدمتِ دین کی راہ میں مصائب و تکالیف رُو بَرُو ہوں تو اس سے گھبرا کر زبان پر شکوہ و شکایت نہ لانا بلکہ “ اَلصَّبْرُ عِنْدَ الصَّدْمَةِ الْاُولٰی “ [1] پر کاربند رہنا۔
(6)جو وعدہ کرنا اس پر بےوفائی کا داغ نہ لگنے دینا بلکہ اس پر تکمیل و وفا کی مہر لگانا۔
(7)اسلام و ایمان کی لازوال نعمت پاکر جھوٹ ، غیبت ، دھوکا ، فریب ، ظلم اور حقوق اللہ و حقوق العباد کے ضائع کرنے کا طوق گلے میں نہ ڈالنا۔
(8)دینِ اسلام ایک پُر امن دین ہے اس لئے کسی پر ظلم نہ کرنا ، یہاں تک کہ جانوروں پر بھی شفقت رکھنا۔ ہاں! اپنی جان و عزت کی حفاظت کے لئے تدابیر ضرور کی جائیں۔
(9) مسلمان کا شیوہ محبتِ قراٰن اور عادتِ قِراءتِ قراٰن ہے نہ کہ تلاوتِ قراٰن سے دوری ، نیزے پر بلند سرِ حسین کی تلاوت کو یاد رکھنا۔
(10)خاص کر خواتین کے لئے اس میں پیغام ہے کہ مصائب و آلام کے پہاڑ ہی کیوں نہ ٹوٹ پڑیں پھر بھی نوحہ و واویلہ اور کوئی غیر شرعی عمل نہ کرنا بلکہ مستوراتِ خاندانِ نبوت کے غم اور طرزِعمل کو پیشِ نظر رکھنا کہ ان ہستیوں نے یہ سارا واقعہ اپنی آنکھوں سے دیکھا پھر بھی انہوں نے نہ نوحہ کیا ، نہ سینہ کوبی کی ، نہ بال بکھیرے اور نہ ہی بےپردگی کا مظاہرہ کیا بلکہ صبر کیا اور “ مرضیِ مَولیٰ اَز ہمہ اَولیٰ “ (یعنی مالک کی رضا سب سے بہتر ہے) کی خاموش صدائیں بلند کیں۔
اللہ کریم ہمیں شہدائے کربلا کے احسانِ عظیم کو یاد رکھنے اور ان کی سیرت و کردار کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* مدرس جامعۃ المدینہ فیضانِ رضا ، بریلی شریف ہند
[1] صبر پہلے صدمے کے وقت ہوتا ہے۔ (بخاری ، 1 / 441 ، حدیث : 1302) یعنی جس وقت مصیبت و آزمائش کا سامنا ہو اس وقت ہی صبر کرنا ہوتا ہے کیونکہ بعد میں تو صبر آ ہی جاتا ہے۔
Comments