زمانَۂ نبوّت سے آج تک اَہلِ حق کے درمیان کبھی بھی اِس مسئلے میں اِختِلاف نہیں ہوا،سبھی کا عقیدہ ہے کہ صَحابَۂ کِرام علیہمُ الرِّضوان اور اَولیائے عِظام رحمہمُ اللہ السَّلام کی کرامتیں حق ہیں۔ ہر زمانے میں اللہ والوں سے کَرامات کا ظہور ہوتا رہا اور اِنْ شَآءَ اللہ قِیامت تک کبھی بھی اِس کا سِلسِلہ ختم نہیں ہوگا۔
کرامت کیا ہے؟مشہور مُفَسِّروحکیمُ
الْاُمّت حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:اصطلاحِ شریعت میں کرامت وہ عجیب و غریب چیز ہے جو ولی کے
ہاتھ پر ظاہر ہو۔ حَق یہ ہے کہ جو چیز نبی کا معجزہ بن سکتی ہے وہ ولی کی کرامت
بھی بن سکتی ہے،سِوا اُس معجزہ کے جو دلیلِ نبوت ہو جیسے وَحِی اور آیاتِ قرآنیہ۔(مراٰۃ المناجیح،ج8،ص268)
عقیدہ:امامِ جلیل، مفتیِ جنّ و اِنْس، نَجْمُ الْمِلَّۃِ وَالدِّین عمر نَسَفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:کَرَاماتُ الْاَوْلِیَاءِ حَقٌّ فَتَظھَرُ الْکَرَامَۃُ عَلٰی طَرِیْقِ نَقضِ
الْعَادَۃِ لِلْوَِلِیِّ مِنْ قَطْعِ مُسَافَۃِ الْبَعِیْدَۃِ فِی الْمُدَّۃِ الْقَلِیْلَۃ
ترجمہ:اولیاءاللہ کی کرامات حق ہیں، پس ولی کی کرامت
خلافِ عادت طریقے سے ظاہر ہوتی ہے مثلاً طویل سفر کو کم وقت میں طے کر لینا۔
اس کی شرح میں حضرت امام سَعْدُالدّین تَفتازانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:جیسے حضرت سیّدُنا سلیمان علیہ السَّلام کے درباری حضرت آصف بن بَرخِیا رضی اللہ عنہ کا طویل مسافت (Long
Distance) پر موجود تختِ بِلقیس کو پلک جھپکنے سے پہلے لے آنا۔ (شرح عقائد نسفیہ ، ص316تا318)
بعدِ وصال بھی کرامات:اولیاء اللہ سے ان کے وصال (Death) کے بعد بھی کرامات ظاہر ہوتی ہیں جیسا کہ حضرت امام ابراہیم بن محمد باجُوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جمہور اہلِ سنّت کا یہی مؤقّف ہے کہ اولیائے کرام سے ان کی حیات اور بَعْدَالْمَمَات (یعنی مرنے کے بعد) کرامات کا ظہور ہوتا ہے (فِقْہ کے) چاروں مَذاہِب میں کوئی ایک بھی مذہب ایسا نہیں جو وِصال کے بعد اولیا کی کرامات کا انکار کرتا ہو بلکہ بعدِ وصال کرامات کا ظہور اَولیٰ ہے کیونکہ اس وقت نفس کَدُورَتَوں سے پاک ہوتا ہے۔(تحفۃ المرید،ص363)
مُنکرِ کرامات کا حکم:یہ عقیدہ ضروریاتِ مذہبِ اہلِ سنّت میں
سے ہے لہٰذا جو کراماتِ اولیا کا انکار کرے، وہ بَدمذہب و گمراہ ہے چنانچہ امامِ
اہلِ سنّت، امام احمد رضا خانرحمۃ
اللہ علیہ فرماتے ہیں: کراماتِ اولیاء کا انکار گمراہی ہے۔(فتاویٰ رضویہ،ج 14،ص324)
شَرح فقہِ اَکبر میں ہے:کراماتِ اولیا قرآن و سنّت سے ثابت ہیں، مُعْتَزِلَہ اور بِدْعَتِیوں کے کراماتِ اولیا کا انکار کرنے کا کوئی اعتبار نہیں۔(شرح فقہ اکبر، ص141)
کرامت کی قسمیں:حضرت
علّامہ یوسف بن اسماعیل نَبْہَانِی رحمۃ
اللہ علیہ نے کراماتِ اولیا کے موضوع پر اپنی کتاب”جامع کراماتِ
اولیاء“ کی ابتدا میں کرامت کی ستّر سے زیادہ اقسام (Types) کو بیان فرمایا ہے۔اولیائے کرام سے ظاہر ہونے والی کرامتوں کی اَقسام اور
ان کی تعداد کے متعلّق حضرت علّامہ تاجُ الدّین سُبْکی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:میرے خیال میں اولیائے کرام سے جتنی اقسام کی کرامتیں ظاہر ہوئی ہیں
ان کی تعداد 100 سے بھی زائد ہے۔(طبقات
الشافعیۃ الکبریٰ،ج2،ص78)
کراماتِ اولیا کی چند
مثالیں: مُردَہ زندہ
کرنا، مُردوں سے کلام کرنا، مادَر زاد اندھے اور کوڑھی کو شفا دینا، مَشرِق سے
مغرب تک ساری زمین ایک قدم میں طے کرجانا، دریا کا پھاڑ دینا،دریا کو خُشک کر دینا،
دریا پر چلنا، نباتات سے گفتگو، کم کھانے کا کثیر لوگوں کو کِفایَت کرنا وغیرہ۔
قراٰن سے ثبوت:حضرت مریم رضی اللہ عنہا کے پاس گرمی کے پھل سردیوں میں اور سردیوں کے پھل گرمی میں موجود ہوتے۔ (تحفۃ المرید،ص363) حضرت زَکَرِیَّا علیہ السَّلام نے حضرت مریم رضی اللہ عنہا سے پوچھا:یہ پھل تمہارے پاس کہاں سے آئے؟ تو حضرت مریم رضی اللہ عنہا نے جواب دیا:یہ اللہ پاک کی طرف سے ہیں چنانچہ فرمانِ الٰہی ہے:( كُلَّمَا دَخَلَ عَلَیْهَا زَكَرِیَّا الْمِحْرَابَۙ-وَجَدَ عِنْدَهَا رِزْقًاۚ-قَالَ یٰمَرْیَمُ اَنّٰى لَكِ هٰذَاؕ-قَالَتْ هُوَ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِؕ-) ترجمۂ کنزالایمان:جب زکریا اس کے پاس اس کی نماز پڑھنے کی جگہ جاتے اس کے پاس نیا رزق پاتے کہا اے مریم یہ تیرے پاس کہاں سے آیا؟ بولیں وہ اللہ کے پاس سے ہے۔(پ3، اٰل عمرٰن:37)(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) اصحابِ کہف کا تین سو نو (309) سال تک بغیر کھائے پئے سوئے رہنا بھی (کرامت کی دلیل) ہے۔(تحفۃ المرید،ص363)
حدیث سے ثبوت:کُتُبِ اَحادیث میں کرامات پر بے شمار روایات موجود ہیں، بعض عُلَما و مُحَدِّثِین نے اس موضوع پر مستقل کتابیں تحریر فرمائی ہیں۔ایک روایت ملاحظہ فرمائیے: ہمارے پیارے نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پیارے صحابی حضرت عبدُاللہ رضی اللہ عنہ کا علمِ غیب دیکھئے کہ اپنی مَوت، نَوعِیَتِ مَوت، حُسنِ خاتِمَہ وغیرہ سب کی خبر پہلے سے دے دی۔ چنانچہ حضرت سیّدُنا جابِر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:جب غَزْوَۂ اُحُد ہوا میرے والد نے مجھے رات میں بُلا کر فرمایا: میں اپنے متعلق خیال کرتا ہوں کہ نبیِّ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صحابہ میں پہلا شہید میں ہوں گا۔میرے نزدیک رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد تم سب سے زیادہ پیارے ہو۔ مجھ پر قرض ہے تم ادا کردینا اور اپنی بہنوں کے لئے بھلائی کی وَصِیَّت قبول کرو۔حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:ہم نے دیکھا صبح سب سے پہلے شہید وہی تھے۔(بخاری،ج1،ص454،حدیث:1351مختصراً)
امیرُالمؤمنین حضرت سیّدُنا عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ ایک صالح نوجوان کی قبر پر تشریف لے گئے اور فرمایا: اے فُلاں! اللہ پاک نے وعدہ فرمایا ہے کہ (وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِۚ(۴۶)) ترجمۂ کنزالایمان:اور جو اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرے اس کے لیے دو جَنّتیں ہیں۔(پ27،الرحمٰن: 46) اے نوجوان!بتا تیرا قبر میں کیا حال ہے؟اس صالح نوجوان نے قبر کے اندر سے آپ کا نام لے کر پکارااوربُلَند آواز سے دو مرتبہ جواب دیا: میرے رب نے مجھے یہ دونوں جنّتیں عطا فرما دیں۔(حجۃ اللہ علی العالمین،ص612)(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
حضرت سیّدُنا سفینہ رضی
اللہ عنہ کی کرامت بھی
بہت مشہور ہے کہ یہ رُوم کی سَرزمین میں دورانِ سفر اسلامی لشکر سے بِچَھڑ گئے۔ لشکر کی تلاش میں جارہے تھے کہ اچانک جنگل سے ایک شیر
نکل کر ان کے سامنے آگیا۔حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ نے شیر
کو مخاطب کر کے کہا: اے شیر! اَنَامَولٰی رَسُولِ اللہِ صلَّی
اللہ علیہ وسلَّم یعنی میں رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا غلام ہوں، میرا معاملہ اِس
اِس طرح ہے۔ یہ سُن کر شیر دُم ہِلاتا ہُوا ان کے پہلو میں آکر کھڑا ہوگیا۔ جب کوئی
آواز سنتا تو اُدھر چلا جاتا، پھر آپ کے بَرابَر چلنے لگتا حتّٰی کہ آپ لشکر تک پہنچ گئے پھر شیر واپس چلا گیا۔(مشکاۃ المصابیح ،ج2،ص400،حدیث:5949)
اللہ کریم کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭…محمد عدنان
چشتی عطاری مدنی
٭…رکن مجلس
المدینۃ العلمیہ کراچی
Comments