Book Name:Ghos e Pak Ki Shan o Azmat 10th Rabi ul Akhir 1442
ابو غالب فضلُ اللہ سوداگر حاضر ہوا ، وہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سے عرض کرنے لگا : اے میرے سردار! آپ کے جدِّامجد ، حضورپُرنور ، جنابِ احمد مجتبیٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ ذیشان ہے : “ جوشخص دعوت میں بُلایا جائے اس کو دعوت قبول کرنی چاہئے۔ “ میں آپ کے پاس اس لیے حاضر ہوا ہوں کہ آپ میرے گھر دعوت پر تشریف لائیں۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا : “ اگر مجھے اجازت ملی تو میں آؤں گا۔ “ پھر کچھ دیر بعد آپ نے مُراقبہ کرکے فرمایا : “ ہاں !آؤں گا۔ “
پھر آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ اپنے خچر پر سُوار ہوئے ، شیخ علی نے آپ کے خچر کی دائیں رِکاب پکڑی اور میں نے بائیں رِکاب تھامی اورجب ہم اس کے گھر آئے ، دیکھا تو بغداد کے مشائخ ، علماء اور معززین جمع ہیں ، ایسا دسترخوان بچھایا گیا جس میں تمام شیریں اور تُرش چیزیں کھانے کے لئے موجود تھیں ، ایک بڑاصندوق لایا گیا جس کودو آدمی اُسے اُٹھائے ہوئے تھے۔ اس صندوق کو دسترخوان کے ایک طرف رکھ دیا گیا۔ ابو غالب نے کہا : اجازت ہے۔ اس وقت حضرت سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ مُراقبے میں تھے اور آپ نے کھانانہ کھایا اور نہ ہی کھانے کی اجازت دی لہٰذا کسی نے بھی کھانا نہ کھایا۔ آپ کی ہیبت کے سبب مجلس والوں کا حال ایسا تھا کہ گویا ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہیں ، پھر آپ نے شیخ علی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : صندوق اُٹھا لایئے۔ ہم اُٹھے اور اسے اُٹھایا تو وہ وزنی تھا۔ ہم نے صندوق کو آپ کے سامنے لاکر رکھ دیا۔ آپ نے حکم دیا : صندوق کو کھولا جائے۔ چنانچہ ہم نے کھولا تو اس میں ابو غالب کا لڑکا موجود تھا جو پیدائشی اندھا تھا۔ غوثِ پاکرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے اس سے کہا : کھڑا ہو جا۔ غوثِ پاکرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے کہنے کی دیر تھی ہم نے دیکھا کہ لڑکا دوڑنے لگا اور دیکھنے کے قابل بھی ہوگیااورایسا ہوگیاگویاکہ کبھی بیماری میں مبتلا ہی نہیں تھا ، یہ حال دیکھ کر مجلس میں