Book Name:Hazrat Ibraheem Aur Namrood

الَّذِیْ یُحْیٖ وَ یُمِیْتُۙ-قَالَ اَنَا اُحْیٖ وَ اُمِیْتُؕ-قَالَ اِبْرٰهٖمُ فَاِنَّ اللّٰهَ یَاْتِیْ بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَاْتِ بِهَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُهِتَ الَّذِیْ كَفَرَؕ-وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَۚ(۲۵۸)  (پارہ3 ، سورۃالبقرۃ : 258)

رب کے بارے میں اس بنا پر جھگڑا کیا کہ اللہ نے اسے بادشاہی دی ہے ، جب ابراہیم نے فرمایا : میرا رب وہ ہے جو زندگی دیتا ہے اور موت دیتا ہے۔ اس نے کہا : میں بھی زندگی دیتا ہوں اور موت دیتا ہوں۔ ابراہیم نے فرمایا : تو اللہ سورج کو مشرق سے لاتا ہے پس تو اسے مغرب سے لے آ۔ تو اس کافر کے ہوش اُڑ گئے اور اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔

اس اِیْمَان افروز مُنَاظرے کی تفصیل یُوں ہے ایک بار قحط سالی ہو گئی ، بارشیں رُک گئیں ، اَناج ختم ہونے لگا ، لوگ مشکلات کا شکار ہوئے۔ ایسے مشکل وقت میں نمرود نے یہ سیاست کھیلی کہ غلے اور اناج کے تمام ذخیرے اپنے قبضے میں کر لئے ، اب جو کوئی غلہ لینے آتا ، نمرود اس سے پوچھتا : تیرا رَبّ کون ہے؟ وہ کہہ دیتا کہ میرا رَبّ تُو ہے۔ نمرود اسے غلہ دے دیتا۔ اسی دوران حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام بھی نمرود کے دربار میں تشریف لائے۔ اس وقت حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام اور نمرود کے درمیان یہ مُنَاظَرہ ہوا۔ ([1])  

اس مُنَاظَرے میں حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کی اَصْل ایک ہی دلیل ہے اور وہ یہ کہ

*رَبّ وہ ہوتا ہے ، جو مکمل قُدْرت و اختیار والا ہو ، کسی کا محتاج نہ ہو۔

*اور صِرْف ایک ہی ہستی ہے جو کائنات میں مکمل قدرت و اختیار والی ہے۔

* لہٰذا وہ ایک ہی ہستی رَبّ ہے ، سَب اُس  کے محتاج ہیں ، وہ کسی کا محتاج نہیں۔


 

 



[1]...تفسیرنعیمی ، پارہ : 3 ، سورۂ بقرہ ، زیرِآیت : 258 ، جلد : 3 ، صفحہ62۔