Book Name:Hazrat Ibraheem Aur Namrood
پیارے اسلامی بھائیو! حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کی دلیل بالکل واضِح ، مکمل اور آسانی سے سمجھ آنے والی تھی اور اس کا جواب دینا نمرود بدبخت کے بَس کی بات نہیں تھی۔ البتہ نمرود ایک بادشاہ تھا ، آس پاس سب اُس کے وزیر ، مشیر تھے ، اسے خُدا ماننے والی عوام تھی ، ان سب کے سامنے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کی دلیل کا جواب نہ دے سکنا ، نمرود کے لئے سخت ذِلَّت کا سبب تھا ، لہٰذا اُس بےوقوف نے اپنی جھوٹی عِزَّت بچانے کے لئے نہایت اَحْمقانہ جواب دیا ، بولا :
قَالَ اَنَا اُحْیٖ وَ اُمِیْتُؕ- (پارہ3 ، سورۃالبقرۃ : 258)
ترجمہ کنزُ العِرفان : میں بھی زندگی دیتا ہوں اور موت دیتا ہوں۔
یعنی اے ابراہیم (عَلَیْہِ السَّلَام)! آپ کے کہنے کے مُطَابق اگر ربّ وہ ہوتا ہے جو زِندگی اور موت دیتا ہے تو یہ کام میں بھی کر لیتا ہوں ، لہٰذا آپ ہی کی دلیل کی رُو سے میں رَبّ ہوا۔ پھر نمرود نے اپنے اس دعوے کو ثابت کرنے کے لئے 2 قیدی بُلائے ، اُن میں سے ایک کو قتل کر دیا اور دوسرے کو رِہا کر دیا اور کہا : دیکھو! جسے میں نے چھوڑا ، اسے میں نے زِندگی دی اور جسے قتل کیا ، اسے میں نے موت دی۔
اللہ! اللہ...!! کیسی حَمَاقت کی بات ہے...!! کہاں ایک بےجان چیز میں جان ڈالنا اور کہاں زِندہ شخص کو زِندہ رہنے دینا ، اِن دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے ، اگرچہ عقل مند اسی سے سمجھ سکتے تھے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کی دی ہوئی دلیل پختہ اور واضِح ہے مگر اس پر نمرود کی یہ ظالمانہ حرکت کیسی حماقت پر مبنی ہے ، البتہ وہاں موجود سب لوگ نمرود کے حمایتی تھے ، وہ نمرود کی اس حماقت کو اس کی فتح سمجھتے ، لہٰذا حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام