Book Name:Imam Pak Aur Yazeed Paleed
یہ بھی یاد رکھئے! طاقت و قُوَّت کے نشے میں طاقت ہونا ضروری نہیں ہے ، بہت دفعہ طاقت ہوتی نہیں ہے ، لوگ اپنے گمان میں اپنے آپ کو طاقت ور تَصَوُّر کر لیتے ہیں۔ مولانا رُوم رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں :
نَفْسِ کَسْ رَا فِرْعَوْن نیست لَیْک اُوْ رَا عَوْن کَسْ رَا عَوْن نیست
یعنی؛ کون ہے جس کا نفسِ اَمَّارہ فِرْعَون نہیں ، ہاں! فِرْعَوْنِ مِصْر کو تخت ملا تھا ، سب کو تخت نہیں ملتا۔
یہ اَصْل بات ہے ، جو اپنے اندر سے طاقت و قُوَّت کا یہ نشہ ختم کر لے ، “ میں ، میں “ نہ کرے ، اپنے نَفْس کو قابُو میں کر لے یا یُوں کہہ لیجئے کہ اپنے اندر کے فِرْعَون کو مار لے حقیقت میں وہ شخص ظُلْم سے بچ سکتا ہے۔ مُعَاشَرے میں غَور کر لیجئے! جو عاجزی والا ہوتا ہے ، وہ کبھی دوسروں کو تکلیف نہیں پہنچاتا ، اگر جانے انجانے میں کبھی کسی کو کچھ کہہ بھی بیٹھے تو جلدی سے معافی مانگ لیتا ہے اور جو عاجزی والا نہیں ہوتا ، جو اپنے آپ کو کچھ سمجھتا ہے ، وہ بات بات پر آستینیں چڑھانے کو دوڑتا ہے۔
اس لئے اگر ہم واقعی حسینی بننا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے اندر کے فِرْعَون (یعنی نَفْسِ اَمّارہ) کو قابُو میں کرنا پڑے گا ، عاجزی اپنانی ہو گی۔ یہ بھی یاد رہے! عاجزی کا یہ مطلب نہیں کہ ہم لوگوں سے ڈرنا شروع کر دیں ، نہیں ، نہیں ، لوگوں سے ڈرنا تو بزدلی ہے ، امام حُسَیْن رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ بزدل نہیں تھے ، امام حُسَیْن رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ تو کمال کے بہادر تھے۔ عاجزی لوگوں کے ڈر سے نہیں ملتی ، حقیقی عاجزی خوفِ خُدا سے نصیب ہوتی ہے۔
حضرت سلیمان عَلَیْہِ السَّلَام اللہ پاک کے نبی ہیں ، آپ کا مشہور درباری پرندہ ہے : ہُدہُد۔ ایک بار ہُدہُد حضرت سلیمان عَلَیْہِ السَّلَام کی اجازت کے بغیر کہیں چلا گیا ، ہُدہُد کی اس حرکت سے حضرت سلیمان عَلَیْہِ السَّلَام سخت ناراض ہوئے اور فرمایا : ہُدہُد واپس آئے گا تو میں اسے سزا دُوں گا۔ جب ہُدہُد واپس آیا اور دیکھا کہ حضرت سلیمان عَلَیْہِ السَّلَام جلال میں ہیں تو اس نے عاجزی کی ، اپنے پروں کو زمین پر گھسیٹتے ہوئے حاضِر ہوا اَور موقع دیکھ کر ، ادب کے دائرے میں رہتے ہوئے قیامت کے دِن بارگاہِ اِلٰہی میں پیشی کا ذِکْر کر دیا ، بَس قیامت کا ذِکْر سننا تھا ، حضرت سلیمان عَلَیْہِ السَّلَام کانپ گئے اور آپ نے ہُدہُد کو مُعَاف کر دیا۔ ([1])