Book Name:Eman Ki Hifazat
کرنے کے معاملےمیں سُستی نہیں کرنی چاہئے اور اس خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہیے کہ ہم تو پیدا ہی مسلمان ہوئے ہیں ،ہمارے ماں باپ،دادا، دادی اور خاندان کے سبھی لوگ مسلمان تھےلہٰذا ہم بھی مسلمان ہیں اور مسلمان ہی مریں گے۔ممکن ہے ساری زندگی ہم ایمان پر قائم رہیں،زندگی بھر خوب نیکیاں بھی کرتے رہیں مگر مرنے سے پہلے مَعاذَ اللہ زبان سے کوئی کفر نکل جائے اور ایمان پر خاتمہ نصیب نہ ہو۔لہٰذاہمیں ہر وَقْت اپنے ایمان کی سلامتی کیلئے دُعائیں اور مرتے وقت ایمان کی حفاظت کیلئے فکر کرنی چاہیے۔عُلمائے کرام فرماتے ہیں:جس کو زندگی میں سَلْبِِ ایمان یعنی اِیمان چھن جانے کا خوف نہ ہو نزع یعنی مرتے وقت اُس کا ایمان سَلْب ہوجانے(یعنی چھن جانے)کا شدید خطرہ ہے۔(ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت ،ص۴۹۵ بتغیرقلیل)(کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب،ص۴۵۷)لیکن افسوس !آجکل ہماری اکثریت کو ایمان کی سلامتی کی فکرہی نہیں، فکر ہے تو اپنا بینک بیلنس(Bank Balance)بڑھانے کی ، فکر ہے تو ایک دوسرے پر دُنیوی برتری حاصل کرنے کی، فکر ہے تو عزّت وشہرت کمانے کی ،حالانکہ ہم میں سے کسی کے پاس اس بات کی گارنٹی نہیں کہ مرتے وقت ہمارا ایمان سلامت بھی رہے گا یا نہیں۔ مَعَاذَ اللہ گناہوں کی نحوست کے سبب ہمارا ایمان برباد ہوگیا تو کیا کریں گے ؟حضرت سیِّدُنا ابودرداء رَضِیَ اللہُ عَنْہُ فرمایا کرتے تھے: خُدا پاک کی قسم! کوئی شخص اس بات سے مطمئن نہیں ہوسکتا کہ مرتے وقت اس کا ایمان باقی رہے گا یا نہیں۔ (کیمائے سعادت، پیدا کردن سوء خاتمت، ۲ /۸۲۵ )(برے خاتمے کے اسباب،ص۲۷)
حُجَّۃُ الْاِسْلامحضرت سیِّدُناامام محمد غزالیرَحمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں:جب انسان پر روح نکلنےکی کیفیت طاری ہوتی ہے، اس وقت شیطان اپنے شاگردوں کولےکردُنیا سےکُوچ کرجانے والے رشتے داروں مثلاً