Book Name:Naza aur Qabr Ki Sakhtian-1442
ہائے! اگر ہماری بداعمالیوں کے سبب اللہ پاک ہم سے ناراض ہو گیا تو ہمارا کیا بنے گا!
ذرا سوچو تو سہی! اگر ہمیں خوب صُورت اور آسائشوں سے بھر پور کوٹھی میں تنہا قید کر دیا جائے ، تب بھی گھبرا جائیں اور ہم میں سے شاید کوئی بھی قبرستان میں تو اکیلا ایک رات گزارنے کی جسارت نہ کر سکے ، آہ! اس وقت کیا ہو گا جب منوں مٹی تلے ہمیں اکیلا چھوڑ کر ہمارے اَحْبَاب پلٹ جائیں گے ، جسم اگرچہ ساکِن ہو گا مگر عقل سلامت ہو گی ، لوگوں کو جاتا دیکھ رہے ہوں گے ، ان کے قدموں کی چاپ سُن رہے ہوں گے ، منوں مٹی تلے دبے پڑے ہوں گے۔ آہ! اس وقت تنگ وتاریک قبر میں صدمات ہی صدمات ہوں گے۔
شیخِ طریقت ، امیرِ اہلسنت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ عِبْرَت کے مزید مَدَنی پھول دیتے ہوئے فرماتے ہیں : یاد رکھئے! ہر وہ چیز جس سے زندگی میں آدمی کو محض دنیوی محبت ہوتی ہے ، مرنے کے بعد اس کی یاد تڑپاتی ہے اور یہ صدمہ مُردے کے لئے ناقابلِ برداشت ہوتا ہے ، اس بات کو یوں سمجھنے کی کوشش کیجئے کہ جب کسی کا پھول جیسا اکلوتا بچہ گم ہو جائے تو وہ کس قدر پریشان ہوتا ہے اور اگر ساتھ ہی اس کا کاروبار وغیرہ بھی تباہ ہو جائے تو اس کے صدمے کا کیا عالم ہو گا ، نیز اگر وہ افسر بھی ہو اور مصیبت بالائے مصیبت اس کا وہ عہدہ بھی جاتا رہے تو اس پر جو کچھ صدمے کے پہاڑ ٹُوٹیں گے اس کو وہی سمجھے گا ، لہٰذا مُردے کو والدین ، بیوی ، بچوں ، بھائی بہنوں اور دوستوں کی جدائی ، گاڑی ، لباس ، مکان ، دکان ، فیکٹری ، عمدہ پلنگ ، فرنیچر ، کھانے پینے کی چیزوں کا ذخیرہ ، خون پسینے کی کمائی ، عہدہ وغیرہ ہر ہر وہ چیز جس سے اسے محض دُنیا کے لئے محبت تھی ، اس کی جُدائی کا صدمہ ہوتا ہے اور جو جتنازیادہ لذّتِ نفس کی خاطر راحتوں میں زندگی گزارتا ہے مرنے کے بعد اُن آسائشوں کے چُھوٹنے کا