Book Name:Naza aur Qabr Ki Sakhtian-1442

باندھ لے توشہ سفر ہونے کو ہے              ختم بس اب ہر بشر ہونے کو ہے

ایک دِن مرنا ہے آخر موت ہے

کر لے جو کرنا ہے آخر موت ہے

صَلُّوْا عَلَی الْحَبیب!                                               صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی مُحَمَّد

اے عاشقانِ رسول!  ایک طرف یہ ہولناک صدمات ہیں ، قبر میں پہنچتے ہی اندھیرا اور تنہائی کاٹ کھاتی ہو گی ، کلیجہ منہ کو آتا ہو گا ، اس کے ساتھ ہی قبر کی ڈانٹ ڈپٹ شروع ہوجائے گی۔ حضرت عبداللہ بن عُبَیْد رَضِیَ اللّٰہ عَنْہُ سے روایت ہے ، نبیِ اکرم ، نورِ مجسم  صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  نے فرمایا : جب مُردے کے ساتھ آنے والے لوٹ کر چلتے ہیں تو مُردہ بیٹھ کر ان کے قدموں کی آواز سنتا ہے اور قبر سے پہلے کوئی اس کے ساتھ ہم کلام نہیں ہوتا ، قبر کہتی ہے : اے آدمی! کیا تُو نے میرے حالات نہ سُنے تھے؟ کیا میری تنگی ، بدبو ، ہولناکی اور کیڑوں سے تجھے نہیں ڈرایا  گیا تھا؟ اگر ایسا تھا تو پھر تُو نے کیا تیاری کی؟([1])

پیارے اسلامی بھائیو! ہم ذرا تصور تو کریں کہ جب ہم قبر میں تنہا رِہ گئے ہوں گے ، گھبراہٹ طاری ہو گی ، نہ کہیں جا سکتے ہوں گے ، نہ کسی کو بُلا سکتے ہوں گے اور بھاگ نکلنے کی بھی کوئی صُورت نہ ہو گی ، اس وقت قبر کی کلیجہ پھاڑ پکار سُن کر کیا گزرے گی!

قبر میں نمازیوں اور سُنّت پر عمل کرنے والوں کے لئے راحتیں جبکہ بےنمازیوں اور غیر شرعی فیشن کرنے والوں کے لئے آفتیں ہی آفتیں ہوں گی۔ چنانچہ

 امام جلال الدین سیوطی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ  فرماتے ہیں : حضرت عُبَیْد بن عمیر رَضِیَ اللہُ عَنْہُ سے روایت ہے : قبر مُردے سے کہتی ہے : اگر تُو اپنی زندگی میں اللہ پاک کا فرمانبردار تھا تو


 

 



[1]...شرحُ الصُّدور ،  صفحہ : 86۔