Book Name:Naza aur Qabr Ki Sakhtian-1442
آرہی ہے ، قبر کی منزل کی جانب برابر آگے کُوچ جاری ہے ، تصور کیجئے کہ ہم گویا بڑی احتیاط سے ایمان کو بحفاظت سینے سے چمٹائے ہوئے ہیں ، ایک طرف نفسِ اَمّارہ ایمان پر جھپٹ رہا ہے ، دوسری طرف شیطان چالیں بدل بدل کر وار کر رہا ہے ، تیسری طرف بدمذہب ایمان پر کَمَنْد ڈالنے میں مصروف ہیں تو چوتھی طرف سے دُنیا کی بےجا محبت ایمان کے در پے ہے! یعنی یُوں سمجھئے کہ کوئی ہاتھ مروڑ رہا ہے ، کوئی ٹانگ کھینچ رہا ہے ، کوئی مُکّے رسید کر رہا ہے ، کوئی لاتیں اُچھال رہا ہے ، ہر ایک پُورا زَور لگا رہا ہے کہ کسی طرح ہم سے ایمان چھین لے ، آہ! اس حالت میں ایمان کی دولت کو سلامت لے کر قبر میں کیسے داخِل ہوں گے...!! ([1])
راہ پُر خار ہے ، کیا ہونا ہے؟ پاؤں اَفگار ہے ، کیا ہونا ہے؟([2])
اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سَفَرِ آخرت کی دشواریاں بیان کر رہے ہیں ، ان تکلیفوں کا نقشہ کھینچتے ہوئے غفلت میں سَوئے ہوؤں کو جھنجوڑ رہے ہیں :
راہ پُر خار ہے ، کیا ہونا ہے؟ پاؤں افگار ہے ، کیا ہونا ہے؟
دُور جانا ہے رہا دِن تھوڑا راہ دُشوار ہے کیا ہونا ہے؟
ہائے رے نیند مُسَافِر تیری کُوچ تیار ہے ، کیا ہونا ہے؟
ارے اَو مجرمِ بے پروا دیکھ سَر پہ تلوار ہے کیا ہونا ہے؟
روشنی کی ہمیں عادَت اور گھر تِیرہ و تار ہے کیا ہونا ہے؟