Book Name:27 Nimazun Ka Sawab
مَصْرُوف رہے ، آخر 1367 ہجری بمطابق 1948 میں آپ رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ نے حج کا ارادہ فرمایا اور سفینۂ مدینہ میں سُوار ہونے کے لئے اپنے وطن مدینۃ العلماء گھوسی سے بمبئی تشریف لائے ، یہاں آپ کو نمونیہ ہو گیا اور سفینے میں سُوار ہونے سے پہلے ہی ذِیْقَعْدَۃُ الْحَرام کی دوسری شب ، 12 بج کر 26 منٹ پر اس دُنیائے فانی سے رُخصت ہو گئے۔([1])
اے عاشقانِ رسول ! موت تو سب کو آنی ہی آنی ہے مگر صَدْرُ الشَّرِیْعہ رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ کا مُقَدَّر دیکھئے کہ سَفَرِ حج کے دوران آپ رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ نے سَفَرِ آخرت کا آغاز فرمایا اور حدیثِ پاک کے مُطَابق جو شخص حج کے لئے گھر سے نکلے اور راستے میں وفات پا جائے تو قیامت تک اس کے لئے حج کرنے والے کا ثواب لکھا جائے گا۔ ([2])
مدینے کا مسافر ہند سے پہنچا مدینے میں قدم رکھنے کی بھی نوبت نہ آئی تھی سفینے میں
صَلُّوْا عَلَی الْحَبیب! صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی مُحَمَّد
صَدْرُ الشَّرِیْعَہ کا ذَوْقِ نماز
اے عاشقانِ رسول ! صَدْرُ الشَّرِیْعَہ ، مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ نماز سے بہت محبت کرنے والے تھے ، سَفَر میں ہوتے یا گھر میں ، کبھی بھی نماز قضا نہ فرماتے ، شَدِیْد سے شَدِیْد بیماری کی حالت میں بھی نماز ادا فرماتے ، ایک بار آپ رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ اجمیر شریف میں تھے کہ آپ کو شدید بُخَار ہوا ، یہاں تک کہ بےہوشِی طاری ہو گئی ، دوپہر سے پہلے آپ رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ بےہوش ہوئے اور عصر تک اسی حال پر رہے۔ حافِظ ملّت مولانا عبدُالعزیز مبارک پُوری رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ صَدْرُ الشَّرِیْعَہ رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ کے شاگرد ہیں ، یہ آپ کی