Book Name:27 Nimazun Ka Sawab
تھی ، ایک دَفعہ ایسا ہوا کہ آپ رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ صبح کی نَماز کے لئے جا رہے تھے ، راستے میں ایک کُنواں تھا ، ابھی کچھ اندھیرا تھا اور راستہ بھی ناہموار (یعنی اُونچا نیچا) تھا ، بے خیالی میں کُنويں پر چڑھ گئے قریب تھا کہ کنویں کے غار میں قدم رکھ دیتے ۔ اتنے میں ایک عورت آگئی اور زور سے چِلائی ! “ ارے مولوی صاحِب کُنواں ہے رُک جاؤ!ورنہ گر پڑیں گے! “ یہ سن کر صَدْرُ الشّریعہ رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ نے قدم رَوْک لیا اور پھر کنویں سے اُتَر کر مسجد گئے۔
یعنی مسجد جانے میں صَدْرُ الشَّریعہ رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ کو ایسی مَشَقَّت ہوتی تھی ، اس کے باوُجُود آپ رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ نے مسجد کی حاضِری نہ چھوڑی۔ ([1])
پیارے اسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے! صَدْرُ الشَّرِیْعہ ، بَدْرُ الطَّرِیْقہ ، مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ نماز اور وہ بھی مسجد میں جا کر باجماعت ادا فرمانے کا کیسا ذوق و شوق رکھنے والے تھے۔ اللہ پاک صَدْرُ الشَّرِیْعہ رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ کے صدقے ہمیں بھی نمازِ باجماعت کا شوق اور جذبہ عطا فرمائے۔
بے شک مسجد میں آنا ، مسجد سے محبت کرنا ، مسجد میں دل لگانا ، پانچوں نمازیں پابندی کے ساتھ باجماعت ادا کرنا نیک بندے کی علامت ہے ، اللہ پاک اِرشاد فرماتا ہے :
وَ ارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِیْنَ(۴۳) (پارہ1 ، سورۂ بقرہ : 43)
ترجمہ کنزُ العِرفان : اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔
مُفَسِّرِ قرآن ، حضرت مفتی احمد یار خان رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : اس (آیت ) کا مطلب یہ ہے کہ جماعت سے نماز پڑھا کرو ، کیونکہ جماعت کی نماز تنہا نماز پر 27 دَرَجے