Book Name:Ghous e Pak Ka Ilmi Maqam

کے  جُبّےمیں سی دیئے،مجھے بغداد جانے کی اجازت عنایت فرما دی، مجھے ہر حال میں سچ بولنے کی تاکید فرمائی،والدۂ ماجدہ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہاجِیلان کے باہر تک مجھے چھوڑنے کیلئے تشریف لائیں اورفرمایا: یَا وَلَدِیْ اِذْہَبْ  فَقَدْ خَرَجْتُ عَنْکَ لِلّٰہِ فَہٰذَا وَجْہٌ لَااَرَاہُ اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ یعنی اے میرے پیارے بیٹے،جاؤ!اللہ    پاک کی رضا کی خاطر میں تمہیں اپنے پاس سے جُدا کرتی ہوں اور اب مجھے تمہارا چہرہ قیامت میں ہی دیکھنا نصیب ہوگا۔پھر میں بغداد جانے والے ایک چھوٹے قافلے کے ساتھ روانہ ہوگیا،جب ہم لوگ(ایران کے شہر)ہمدان سے آگے بڑھے تو ساٹھ (60) گھوڑے سوار ڈاکوؤں نے قافلے کو آ گھیرا اور اہلِ قافلہ کو لُوٹنا شُروع کردیا ،مجھ سے کسی نے زور زبردستی نہ کی، البتہ اُن میں سے ایک شخص نے مجھ سے پوچھا کہ تمہارے پاس کیا ہے؟ میں نے سچ بولتے ہوئے کہا:میرے پاس چالیس (40) دِینار(یعنی سونے کے سِکّے) ہیں۔ اُس نے پوچھا:کہاں ہیں؟ میں نے بتایا: میری بغل کے نیچے میری گُدڑی میں سِلے ہوئے ہیں،وہ اِس بات کو مذاق سمجھ کر میرے پاس سے چلا گیا،تھوڑی دیر بعد ایک دوسرے شخص نے آکر یہی سُوالات کئے اور میں نے وہی جوابات دئیے ،وہ شخص بھی میرے پاس سے چلا گیا ،اُن دونوں نے جب اپنے سردار کو یہ بات بتائی تو اُس کے حکم پر مجھے اُس کے پاس لے جایا گیا،اُس وقت وہ سب لوگ لُوٹا ہوا مال آپس میں تقسیم کررہے تھے،مجھے دیکھ کر اُن کے سردار نے پوچھا کہ تمہارے پاس کیا ہے؟ میں نے بتایا: میرے پاس میری گُدڑی میں چالیس (40)دینار ہیں۔ سردار کے کہنے پر میری گُدڑی کھولی گئی تو اس میں سے واقعی چالیس (40)دِینار برآمد ہوگئے،سردار سخت حیران ہوا اور مجھ سے پوچھنے لگا:مَاحَمَلَکَ عَلَی ہٰذا الْاِعْتِرَافِ یعنی تمہیں اِن دِیناروں کا اعتراف کرنے پر کس چیز نے مجبور کِیا؟(یعنی تم چاہتے تو ہمیں نہ بتاتے) میں نے کہا:میری والدہ نے مجھ سے وعدہ لیا تھا کہ میں ہمیشہ سچ بولوں اور کبھی اِس وعدہ کی  خلاف ورزی نہ کروں، یہ سُن کر اُس سردار کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے اور کہنے لگا کہ ایک تم ہو کہ اپنی ماں سے کِیا ہوا وعدہ بھی نِبھا رہے ہو اور ایک میں ہوں کہ کئی سالوں