احکامِ تجارت
*مفتی ابو محمد علی اصغر عطّاری مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ اکتوبر 2024
حرمین طیبین میں زیارتیں کروانے والے شخص کا دکاندار سے کمیشن لینا کیسا؟
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ہم عرب شریف میں زائرین کو مقدس مقامات کی زیارت کرواتے ہیں، راستے میں بعض مقامات پر کچھ دوکان والوں کے پاس گاڑی رکواتے ہیں اور دوکانداروں سے پہلے ہی طے ہوتا ہے کہ ہر مرتبہ گاڑی روکنے پر وہ ہمیں 200 ریال دیں گے، اب چاہے زائرین ان دوکانوں سے شاپنگ کم کریں یا زیادہ یا بالکل شاپنگ نہ کریں، ہمیں اس کا کمیشن 200 ریال ملے گا، کیا ہمارا س طرح کمیشن لینا،جائزہے؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب: سوال میں موجود طریقہ کار اختیار کرکے دوکاندار سے بروکری لینا ناجائز و گناہ ہے۔
مذکورہ حکم کی تفصیل یہ ہے کہ عرف کے مطابق یہاں بروکری میں بروکر کا بنیادی کام دو پارٹیوں کے درمیان عقد کروانا ہے،جبکہ سوال میں موجود صورت کے مطابق دو پارٹیوں کے درمیان عقد کروانا مقصود ہی نہیں، یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی بھی زائر مسافر دوکان سے کچھ نہ خریدے توبھی گاڑی والے کو اپنے ریال ملیں گے،سوال میں درج تفصیل کے مطابق تویہ واضح ہے کہ یہاں بروکری دو پارٹیوں میں عقد کے بغیر صرف افراد لانے پر طے ہوئی ہے جوکہ بروکری میں عرفا ً قابلِ معاوضہ منفعت نہیں اور عرفاً ناقابلِ معاوضہ منفعت پر اجارہ باطل ہوتا ہے، لہٰذا مذکورہ اجارہ باطل ہے۔
اگر صورتِ مسئولہ کی فقہی توجیہ کرتے ہوئے بروکری کو ثابت نہ مانا جائے بلکہ یہ کہا جائے کہ گاڑی والے کا صرف افراد لانے پر ہی اجارہ ہے تو بھی یہ اجارہ باطل ہے کیونکہ ہر طرح کے افراد چاہے وہ خریداری میں دلچسپی رکھتے ہوں یا نہ رکھتے ہوں، ان کے لانے پر اجارہ بھی معروف نہیں۔ نیز اگر یہ گاڑی والا یا گائیڈ زائرین کا اجیر ِخاص ہے کہ اس کا وقت کے تعین کے ساتھ اجارہ کیا گیا ہو تو بکے ہوئے وقت (Contracted Time) میں یہ دوکانداروں کا کام کرنے والا ہوگا اور بلا اجازتِ زائرین یہ بھی جائز نہیں، خاص حرمین طیبین میں زائرین، آثارِ مقدسہ کی زیارت کے لئے گاڑی یا گائیڈ بک کرتے ہیں، زائرین کا مقصد کسی دکان پر جانا عموماً نہیں ہوتا بلکہ یہ ایک غیر اعلانیہ روٹ ہوتا ہے اور دکان پر پہنچ کر زائرین کو پتاچلتا ہے کہ یہاں بھی آنا تھا۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
مرابحہ، سود سے بچنے کا ایک بہترین حل ہے
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شر ع متین اس مسئلے میں کہ زید میرے پاس آتا ہے اسے فریزر یا موٹر سائیکل لینی ہے وہ مجھ سے اس کے لئے قرض مانگتا ہے،میں زید سے کہتا ہوں کہ میں آپ کو مارکیٹ سے فریزر نقد لے کر دیتا ہوں، آپ کو جو قسطیں (Installments) اور نفع (Profit) مارکیٹ میں دینا ہے وہ مجھے دے دینا، وہ اس پر راضی ہو کر میرے ساتھ مارکیٹ جاتا ہے، میں اسے نقد میں فریزر یا موٹرسائیکل خرید کر دے دیتا ہوں، اس صورت میں شرعی حکم کیاہوگا؟ اور جو قبضہ کرنے کا کہا جاتا ہے تو اس قبضہ کرنے سے کیا مراد ہے؟ کیا مجھے وہ موٹرسائیکل ایک دو دن کے لئے گھر لے جا کر پھر زید کو دینی ہوگی؟یا یہ مراد ہے کہ مجھے اپنے ہی نام کی رسید بنانی چاہئے؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب: پوچھی گئی صورت میں آپ کا زید کے ساتھ خود مارکیٹ جا کر نقد فریزر یا موٹرسائیکل خریدنا، اور اس پر قبضہ کرنے کے بعد نفع رکھ کر زید کو بیچنا جائز ہے اصطلاح میں یہ معاملہ ”عقدِمرابحہ“ کہلاتا ہے۔ پوچھی گئی صورت میں قبضہ کرنے کیلئے موٹرسائیکل ایک دو دن کے لئے گھر لے جانا ضروری نہیں ہے بلکہ اتنا بھی کافی ہے کہ فریزر یا بائیک سامنے موجود ہو اور دوکاندار فریزر یا بائیک پر قبضہ کرنے کا اختیار دے دے یعنی یوں کہے: اپنا مال لے جاؤ اور کیفیت یہ ہو کہ آپ لے جانے پر قادر ہوں اور قبضہ کرنے میں کسی قسم کی کوئی رکاوٹ نہ ہو، اس طرح قبضہ کرنے کو فقہی اصطلاح میں ”تخلیہ“ کہتے ہیں۔ جب آپ کا قبضہ ثابت ہوگیا خواہ تخلیہ کے ذریعہ ہوا ہو یا فزیکلی اس چیز کو اپنے قبضے میں لینے سے ہوا ہو، تو اس کے بعد زید کو آپ یہی چیز بیچیں گے تو اپنے مال پر قبضہ کرنے کے بعد بیچنے کا تقاضا پورا ہوجائے گا اور آپ کا وہ چیز آگے بیچنا جائز ہوگا۔ فقط اپنے نام کی رسید بنوانے سے شرعی قبضہ شمار نہیں ہوگا۔ جب کوئی شخص سامنے والے کو اپنے مال کی لاگت بتا کر فروخت کرنے کا پابند ہو تو ایسی خریدو فروخت کو بیع مرابحہ کہتے ہیں، آپ نے سوال میں جو تفصیل ذکر کی ہے، یہ ایسا ہی معاملہ ہے اور یہ طریقہ سود سے بچنے کا ایک بہترین حل ہے۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ جب بھی خرید و فروخت ہو اس کے بنیادی تقاضے اور شرائطِ جواز پوری کرنا ضروری ہے۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
رشوت میں لی گئی رقم کا کیا حکم ہے؟
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ کسی نے نفس و شیطان کے بہکاوے میں آکر کچھ رقم بطورِ رشوت لے لی ہو، اب وہ اس گناہ سے خلاصی حاصل کرنا چاہتا ہے تو کیا وہ رشوت میں لی گئی رقم کسی شرعی فقیر کو صدقہ کرسکتا ہے؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب: رشوت لینا حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے اور رشوت لینے والا اس مال کا مالک بھی نہیں بنتا۔ لہٰذا رشوت لینے والے پر سب سے پہلے تو یہ لازم ہے کہ وہ اس گناہ سے سچی توبہ کرے اور پھر جس جس سے رشوت کا مال لیا ہے ان کو واپس کرے اور اگر وہ نہ رہے ہوں تو ان کے ورثاء کو واپس کرے، اصل مالک کی موجودگی کے باوجود اسے اس کا مال لوٹانے کی بجائے شرعی فقیر کو صدقہ کردیا تو بری الذمہ نہ ہوگا۔ ہاں اگر اصل مالک اور اس کے ورثاء کا پتہ نہ چلے، نہ آئندہ ملنے کی امید ہو اور یہ انہیں تلاش کرنے کی حتی الامکان پوری کوشش کرچکا ہو تو اب ان کی طرف سےشرعی فقیر کو بطورِ صدقہ دے سکتا ہے۔ البتہ اگر بعد میں مالک یا اس کے ورثاء مل گئے اور وہ اس صدقہ کرنے پر راضی نہ ہوں تو انہیں ان کی رقم واپس کرنا ہوگی۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
مختلف ٹیموں کا کرکٹ ٹورنامنٹ میں رقم لگا کر کھیلنا کیسا؟
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ہمارے علاقے میں اس طرح کرکٹ ٹورنامنٹ منعقد کیا جاتا ہے کہ سب ٹیمیں تین تین ہزار روپے مینجمنٹ کو جمع کرواتی ہیں اور جو ٹیم ٹورنامنٹ جیت جاتی ہے اسے مینجمنٹ کی جانب سےمقرر کردہ انعام مثلاً بیس ہزار روپےدیے جاتے ہیں جو کہ تمام ٹیموں سے لی گئی رقم سے دیے جاتے ہیں اور باقی ٹیموں کو کچھ بھی نہیں ملتا، ایسا ٹورنامنٹ کھیلنا اور جیتنے کی صورت میں انعامی رقم لینا جائز ہے؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب: پوچھی گئی صورت میں جو تفصیل بیان ہوئی اس کے مطابق ایسا ٹورنامنٹ کھیلنا قمار (جوا) ہے جو کہ گناہِ کبیرہ اور ناجائز و حرام ہے،اور جیتنے والی ٹیم کا دوسری ٹیموں کی رقم لینا بھی نا جائز و حرام ہے۔
اس مسئلے کی تفصیل یہ ہےکہ ٹورنامنٹ میں ہر ٹیم اس اُمید پر پیسہ لگاتی اور اپنی قسمت آزماتی ہے کہ جیت گئی تو اپنے پیسوں کے ساتھ ساتھ دوسری ٹیموں کا پیسہ بھی حاصل کر لے گی اور اگر ہار گئی تو اپنی رقم سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے گی یہ قمار یعنی جوئے کی صورت ہے،کیونکہ قمار میں یہی ہوتا ہے کہ جوئے باز اس امیدِ موہوم پر اپنا مال لگاتے ہیں کہ یا تو وہ اپنے ساتھی کا مال بھی حاصل کر لیں گے یا اپنا مال بھی گنوا دیں گے۔
جوئے کے بارے میں اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے:
(یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَیْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ(۹۰))
ترجَمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو!شراب اور جُوا اور بت اور پانسے ناپاک ہی ہیں، شیطانی کام، تو ان سے بچتے رہنا کہ تم فلاح پاؤ۔ (پ7، المآئدۃ:90)
قمار (جوئے) کی تعریف بیان کرتے ہوئے سیدی اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت مولانا شاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرّحمٰن فرماتے ہیں: ”امیدِ موہوم پر پانسا ڈالنا۔۔۔ قمار ہے۔‘‘ (فتاویٰ رضویہ، 17/330) جوئے سے حاصل کیا گیا مال حرام ہے، چنانچہ اس کے متعلق فتاویٰ رضویہ میں ہے: ’’سود اور چوری اور غصب اور جوئے کا روپیہ قطعی حرام ہے۔“ (فتاویٰ رضویہ،19/646)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* محقق اہل سنت، دارالافتاء اہل سنت نورالعرفان، کھارادر کراچی
Comments