قراٰن اور دل

قراٰنی تعلیمات

 قراٰن اور دل

*مولانا ابوالنورراشد علی عطاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ اکتوبر 2024

دل انسانی جسم کا انتہائی اہم حصہ ہے۔قراٰنِ کریم میں دل کی اہمیت اور صفات و اقسام کو کئی مقامات پر ذکر کیا گیا ہے۔ اچھے اوصاف پر دل کی تحسین اور بُرے اوصاف پر  مذمت کی گئی ہے۔ دل کا اچھے  یا بُرے اوصاف سے مُتَّصِف ہونا اس لئے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ بروزِ قیامت  دل کے بارے میں بھی پوچھ گچھ کی جائے گی، چنانچہ سورۂ بنی اسرآءیل میں ہے:

(اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓىٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْـٴُـوْلًا(۳۶))

ترجَمۂ کنزالایمان: بےشک کان اور آنکھ اور دل ان سب سے سوال ہونا ہے۔([i])

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

قراٰنِ کریم میں    70 سے زائد مقامات پر  دل کا ذکر آیا ہے، اِن آیات کی روشنی میں دل کی تین اقسام بنتی ہیں:(1)قلبِ سلیم (2)قلبِ مَیّت (3)اور قلب مریض ۔

قلب سلیم : سلیم کے  ایک معنیٰ سلامت  کے ہیں یعنی وہ دل جس کا مالک شبہات و شہوات  کا شکار ہونے سے بچا ہوا ہو اور احکامِ الٰہیہ پر  استقامت سے قائم ہو، رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مبارک سنّتوں پر عامل  اور اسلافِ کرام کی پیروی کرنے والا ہو۔  سورۃ  الشعراء میں فرمایا:

(یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَّ لَا بَنُوْنَۙ(۸۸)  اِلَّا مَنْ اَتَى اللّٰهَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍؕ(۸۹) وَ اُزْلِفَتِ الْجَنَّةُ لِلْمُتَّقِیْنَۙ(۹۰) )

ترجَمۂ کنز الایمان: جس دن نہ مال کام آئے گا نہ بیٹے مگر وہ جو اللہ کے حضور حاضر ہوا سلامت دل لے کر اور قریب لائی جائے گی جنت پرہیزگاروں کے لیے۔([ii])

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

   عظیم مفسر مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں:  سلامتیِ دل سے مراد دل کا بدعقیدگیوں سے پاک ہونا، صوفیا کے نزدیک قلبِ سلیم وہ ہے جسے محبت وعشقِ الٰہی کے سانپ نے ڈس لیا ہوعربی میں سلیم سانپ ڈسے ہوئے کو کہتے ہیں۔([iii])

قلبِ میت :میت مُردے کو کہتے ہیں۔ قلبِ میّت اس دل کو کہتے ہیں جو اپنے ربّ، خالق و مالک، رازق و معبود کو نہ پہچانتا ہو، جو نہ تو خالق و مالک کی عبادت کرے، نہ ہی اس کے حکم پر عمل کرے اور نہ ہی اس کے ممنوعات سے باز آئے۔ نفسانی خواہشات کے پیچھے چلے اور اپنے خالق کو چھوڑ کر غیر کی عبادت کرے۔

قلبِ مریض: وہ دل جو زندہ تو ہو یعنی اپنے خالق و مالک اللہ رب العزّت کی پہچان  اور اس پر ایمان تو رکھتاہے لیکن  شہوت، حرص، حسد، تکبر، خودپسندی اور ریاکاری جیسی بیماریوں میں مبتلا ہے۔

قلبِ سلیم   کے قراٰنی اوصاف([iv])

قلبِ سلیم جو کہ  احکامِ الٰہیہ پر کاربند اور معصیت  و گناہ سے دور رہنے  والا ہوتاہے،  اسے قراٰنِ کریم میں کئی صفات سے موسوم کیا گیا ہے۔

(01)قلبِ مطمئن:یادِ الٰہی سے چین پانے والا دل قلبِ مطمئن کہلاتا ہے جیسا کہ سورۃ الرعد میں ہے:

(اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ تَطْمَىٕنُّ قُلُوْبُهُمْ بِذِكْرِ اللّٰهِؕ-اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَىٕنُّ الْقُلُوْبُؕ(۲۸) )

ترجَمۂ کنز الایمان: وہ جو ایمان لائے اور ان کے دل اللہ کی یاد سے چین پاتے ہیں سن لو اللہ کی یاد ہی میں دلوں کا چین ہے۔([v])

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

(02)قلبِ مُنیب: اللہ کریم سے ڈرنے اور خشیت رکھنے والا دل قلبِ منیب ہے جیسا کہ    سورۂ قٓ میں ہے:

(مَنْ خَشِیَ الرَّحْمٰنَ بِالْغَیْبِ وَ جَآءَ بِقَلْبٍ مُّنِیْبِۙ(۳۳))

ترجَمۂ کنزالایمان: رحمٰن سے بے دیکھے ڈرتا ہے اور رجوع کرتا ہوا دل لایا۔([vi])

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

تفسیرنورالعرفان میں  ہے کہ   جس ڈر میں ہیبت اور تعظیم ہو اسے خشیت کہا جاتا ہے خشیت اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے بےدیکھے ڈرنے کے معنی یہ ہیں انبیاء ِکرام سے سن کر رب کی ہیبت رکھے۔  یعنی ایسا دل ساتھ لایا جو مصیبت میں صابر آرام میں شاکر ہر حال میں رب کا ذاکر تھا۔ صوفیا فرماتے ہیں کہ قلب ِ منیب اللہ کی بڑی نعمت ہے جو خوش نصیب کو ملتی ہے۔([vii])

قلبِ منیب لانے والے کا انعام بھی ارشاد فرمایا گیا ہے :

(اُدْخُلُوْهَا بِسَلٰمٍؕ-ذٰلِكَ یَوْمُ الْخُلُوْدِ(۳۴) لَهُمْ مَّا یَشَآءُوْنَ فِیْهَا وَ لَدَیْنَا مَزِیْدٌ(۳۵) )

ترجَمۂ کنزالایمان: اُن سے فرمایا جائے گا جنّت میں جاؤ سلامتی کے ساتھ،  یہ ہمیشگی کا دن ہے   ان کے لیے ہے اس میں جو چاہیں اور ہمارے پاس اس سے بھی زیادہ ہے۔([viii])

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

(03)قلبِ وجِل: سلامتی والے دل کی ایک قسم قلبِ وجِل یعنی ڈرنے والا دل بھی ہے، اہلِ ایمان کی خاص علامات میں سے ایک علامت یاِدِ الٰہی کے وقت دل کا ڈرجانا بھی ارشاد فرمائی گئی  ہے جیسا کہ سورۃ الانفال میں ہے:

(اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَجِلَتْ قُلُوْبُهُمْ)

ترجَمۂ کنزُالایمان: ایمان والے وہی ہیں کہ جب اللہ یاد کیا جائے  ان کے دل ڈرجائیں۔([ix])

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

تفسیر نورالعرفان میں ہے کہ ذات وصفات کی آیات سے تو ہیبتِ الٰہی پیدا ہو اور آیاتِ عذاب سے خوف، آیات رحمت سے شوق و ذوق پیدا ہو، آنکھوں سے آنسو جاری ہوں، اس سے معلوم ہوا کہ جس کے دل میں عشق کی جلوہ گری نہ ہو، وہ کامل مومن نہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ قرآن خضوع و خشوع اور حضورِ قلبی سے پڑھنا چاہئے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ مومن کا اس جہان میں رب سے ڈرنا آئندہ بےخوفی کا ذریعہ ہے۔ رب فرماتا ہے لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ(۶۲) ([x])

سورۃ الحج میں ڈرنے والا دل رکھنے والوں کو خوشخبری سنائی گئی ہے :

(وَ بَشِّرِ الْمُخْبِتِیْنَۙ(۳۴)  الَّذِیْنَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَجِلَتْ قُلُوْبُهُمْ)

ترجَمۂ کنزالایمان:  اور اے محبوب! خوشی سنادو ان تواضع والوں کو کہ جب اللہ کا ذکر ہوتا ہے ان کے دل ڈرنے لگتے ہیں۔([xi])

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

اسی طرح وہ لوگ جن کے دل  راہِ خدا میں خرچ کرتے وقت پاک اللہ کی ہیبت و جلال سے ڈرتے ہیں ان کا بھی سورۃ المؤمنون میں بیان ہے :

(وَ الَّذِیْنَ یُؤْتُوْنَ مَاۤ اٰتَوْا وَّ قُلُوْبُهُمْ وَجِلَةٌ اَنَّهُمْ اِلٰى رَبِّهِمْ رٰجِعُوْنَۙ(۶۰) اُولٰٓىٕكَ یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ وَ هُمْ لَهَا سٰبِقُوْنَ(۶۱) )

ترجَمۂ کنزالایمان: اور وہ جو دیتے ہیں جو کچھ دیں  اور اُن کے دل ڈر رہے ہیں یوں کہ اُن کو اپنے رب کی طرف پھرنا ہے۔ یہ لوگ بھلائیوں میں جلدی کرتے ہیں اور یہی سب سے پہلے انہیں پہنچے۔([xii])

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:  معلوم ہوا کہ نیکی کرنا اور ڈرنا کمالِ ایمان کی علامت ہے ، گناہ کرکے ڈرنا کمال نہیں، شیطان نے بھی کہا تھا کہ اِنِّیْۤ اَخَافُ اللّٰهَ رَبَّ الْعٰلَمِیْنَ(۲۸) پھر گناہ پر ہی قائم رہا، ہاں گناہ  کرکے ڈرنا کہ گناہ چھوڑ دے کمال ہے اور گناہ کرکے نہ ڈرناسخت جرم ہے۔([xiii])

(04)قلبِ لِین: لین  کے معنیٰ نرمی کے ہیں، قرآنِ کریم میں خوفِ خدا رکھنے والوں کے دلوں کے نرم ہونے کا ارشاد فرمایا گیاہے، چنانچہ سورۃ الزمر میں ہے:

(اَللّٰهُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِیْثِ كِتٰبًا مُّتَشَابِهًا مَّثَانِیَ ﳓ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُوْدُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّهُمْۚ-ثُمَّ تَلِیْنُ جُلُوْدُهُمْ وَ قُلُوْبُهُمْ اِلٰى ذِكْرِ اللّٰهِؕ-ذٰلِكَ هُدَى اللّٰهِ یَهْدِیْ بِهٖ مَنْ یَّشَآءُؕ-وَ مَنْ یُّضْلِلِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ هَادٍ(۲۳))

ترجَمۂ کنزالایمان: اللہ نے اُتاری سب سے اچھی کتاب  کہ اوّل سے آخر تک ایک سی ہے  دوہرے بیان والی اس سے بال کھڑے ہوتے ہیں ان کے بدن پر جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں پھر ان کی کھالیں اور دل نرم پڑتے ہیں یادِ خدا کی طرف رغبت میں   یہ اللہ کی ہدایت ہے راہ دکھائے اسے جسے چاہے اور جسے اللہ گمراہ کرے اسے کوئی راہ دکھانے والا نہیں۔([xiv])

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

(05)قلبِ  خاشِع:یادِ الٰہی سے خشیت پانے والے دل کو قلبِ خاشع کہتے ہیں، اس کے بارے میں سورۃ الحدید میں فرمایا:

(اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُهُمْ لِذِكْرِ اللّٰهِ وَ مَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّۙ-)

ترجَمۂ کنزُالایمان: کیا ایمان والوں کو ابھی وہ وقت نہ آیا کہ اُن کے دل جھک جائیں اللہ کی یاد اور اس حق کے لیے جو اترا   ۔([xv])

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

(06)قلبِ سکینہ: اللہ کریم نے جن اہلِ ایمان کے دلوں پر سکینہ نازل فرمایا، انہیں قلبِ سکینہ سے تعبیر کرسکتے ہیں ، جن کے دلوں پر سکینہ نازل فرمایا گیا انہیں ایمان و یقین کے بڑھنے اور رضائے الٰہی کی نوید بھی سنائی گئی،  سورۃ الفتح میں ہے:

(هُوَ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ السَّكِیْنَةَ فِیْ قُلُوْبِ الْمُؤْمِنِیْنَ لِیَزْدَادُوْۤا اِیْمَانًا مَّعَ اِیْمَانِهِمْؕ-)

ترجَمۂ کنز الایمان: وہی ہے جس نے ایمان والوں کے دلوں میں اطمینان اُتارا تاکہ انہیں یقین پر یقین بڑھے۔([xvi])

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

(لَقَدْ رَضِیَ اللّٰهُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُوْنَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِیْ قُلُوْبِهِمْ فَاَنْزَلَ السَّكِیْنَةَ عَلَیْهِمْ وَ اَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِیْبًاۙ(۱۸) )

ترجَمۂ کنزُالایمان: بےشک اللہ راضی ہوا ایمان والوں سے جب وہ اس پیڑ کے نیچے تمہاری بیعت کرتے تھے  تو اللہ نے جانا جو ان کے دلوں میں ہے  تو ان پر اطمینان اتارا اور انہیں جلد آنے والی فتح کا انعام دیا۔([xvii])

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

(07)قلبِ مَربوط: ربّ کریم کی ثنا و توصیف کرنے  اور صرف اسی کو  معبود ماننے والوں کے دلوں کو مضبوط کیے جانے کی قرآنی نوید ہے، چنانچہ سورۃ  الکہف میں  ہے:

(وَّ رَبَطْنَا عَلٰى قُلُوْبِهِمْ اِذْ قَامُوْا فَقَالُوْا رَبُّنَا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ لَنْ نَّدْعُوَاۡ مِنْ دُوْنِهٖۤ اِلٰهًا لَّقَدْ قُلْنَاۤ اِذًا شَطَطًا(۱۴) )

ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ہم نے ان کے دلوں کی ڈھارس بندھائی جب  کھڑے ہوکر بولے کہ ہمارا رب وہ ہے جو آسمان اور زمین کا رب ہے ہم اس کے سوا کسی معبود کو نہ پوجیں گے ایسا ہو تو ہم نے ضرور حد سے گزری ہوئی بات کہی۔([xviii])

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

(08)قلبِ مُخبِت:مخبت کہتے ہیں جھکنے والے کو، قراٰنِ کریم میں ”دلوں کا جھک جانا“ ایمان کا تقاضا  بیان کیا گیا ہے، چنانچہ سورۃ الحج میں ہے:

( وَّ لِیَعْلَمَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ اَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ فَیُؤْمِنُوْا بِهٖ فَتُخْبِتَ لَهٗ قُلُوْبُهُمْؕ-وَ اِنَّ اللّٰهَ لَهَادِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ(۵۴))

ترجَمۂ کنزالایمان: ( ہم نے تم سے پہلے جتنے رسول یا نبی بھیجے) اس لیے کہ جان لیں وہ جن کو علم ملا ہے  کہ وہ   تمہارے رب کے پاس سے حق ہے تو اُس پر ایمان لائیں تو جھک جائیں اس کے لیے اُن کے دل اور بےشک اللہ ایمان والوں کو سیدھی راہ چلانے والا ہے۔([xix])

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ، نائب مدیر ماہنامہ فیضانِ مدینہ کراچی



([i]):پ15، بنی اسرآءیل:36

([ii]):پ19، الشعرآء:88،89،90

([iii]):نورالعرفان،سورۃ لشعرآء، تحت الآیۃ:88تا90

([iv]):قلب میت اور قلب مریض کے اوصاف  الگ مضمون کی صورت میں اگلے ماہ کے شمارے میں  شائع کئے جائیں گے۔ ان شآء اللہ

([v]):پارہ13، الرعد:28

([vi]):پارہ26، قٓ:33

([vii]):تفسیرِ نورالعرفان،ص830،قٓ،تحت الآیۃ:33

([viii]):پارہ26، قٓ:34،35

([ix]):پارہ9، الانفال:2

([x]):تفسیرِ نورالعرفان، ص281،الانفال،تحت الآیۃ:2

([xi]):پارہ17، الحج:34تا35

([xii]):پارہ18، المؤمنون:60تا61

([xiii]):تفسیرِ نورالعرفان، ص551،المومنون،تحت الآیۃ:60

([xiv]):پارہ23، الزمر:23

([xv]):پارہ27، الحدید:16

([xvi]):پارہ26، الفتح:04

([xvii]):پارہ26، الفتح:18

([xviii]):پارہ15، الکہف:14

([xix]):پارہ17، الحج:54


Share