فریاد
کام کی باتیں
دعوتِ اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ کے نگران مولانا محمد عمران عطّاری
*ماہنامہ فیضانِ مدینہ اکتوبر 2024
دعوتِ اسلامی کی مرکزی مجلسِ شوریٰ کے نگران حضرت مولانا حاجی محمد عمران عطاری مختلف مقامات پرسنتوں بھرے اجتماعات میں اصلاح وتربیت پرمشتمل بیانات اور مدنی چینل کے سلسلوں کے ذریعے اخلاقی،اصلاحی ،اعتقادی ،روحانی معاشی اور معاشرتی معاملات اور مسائل کا حل ارشاد فرماتے ہیں۔ذیل میں آپ کی گفتگو سے 27اہم نکات ملاحظہ کیجئے:
(1)کسی بات کا اچھے انداز سے جواب دینے میں آپ کا مطالعہ، آپ کا مشاہدہ اور آپ کا تجربہ بہت کارآمد ہوتا ہے ۔
(2)جس انسان میں پڑھنے کا شوق ہو ،سیکھنے کا جذبہ ہو اور سمجھنے کی صلاحیت ہو اور ساتھ میں اللہ پاک کی رحمت شامل ہو تو پھر شخصیت میں نکھار پیدا ہوتا ہے۔
(3)جس شخص میں آگے بڑھنے کا شوق ہوتا ہے وہ سیکھنے سے کبھی پیچھے نہیں ہٹتا بلکہ ہمیشہ لرننگ موڈ (Learning Mode) میں ہوتا ہے ایسا شخص آہستہ آہستہ ترقی کرتا چلاجاتا ہے ۔
(4)سیکھنے کاایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ جب ہمیں کوئی نئی بات معلوم ہوتی ہے تو وہ ہماری جہالت کو ختم کرتی ہے ۔
(6)اگر آپ سیکھنے پر تیار ہیں اور سکھانے پر حریص ہیں تو یہ دونوں چیزیں آپ کے علم کے کنویں کو بھر دیتی ہیں۔
(5)علم اور دولت میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ علم بانٹنے سے بڑھتا ہے جبکہ دولت بانٹنے سے کم ہوتی ہے ۔
(7)معاشرے کے بگڑے ہوئے حالات کو سدھارنے کے لئے ہم میں سے ہر ایک کی ذمہ داری بنتی ہے کُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْئُوْل عَنْ رَعِیَّتِہٖ تم میں ہر ایک سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال کیا جائےگا ،اسلام کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس نے اپنے کلمہ پڑھنے والے کو غیر ذمہ دار نہیں چھوڑا۔
(8)جب کوئی کام مشورے سے کیا جائے اور بعد میں کوئی نقصان ہوجائے تو پھر کسی ایک بندے کو شرمندگی نہیں ہوتی بلکہ نقصان اجتماعی طور پر برداشت کرنے کا ذہن بنتاہے۔
(9)قبولیتِ حق کا جذبہ ہونا چاہئے،بات کرنے والا چاہے چھوٹا ہو یا بڑا سینئر ہو یا جونیئر۔
فاروقِ اعظم رضی اللہُ عنہ مدینَۂ منورہ کے نوجوانوں سے مشورہ کرتے تھے کیونکہ ان میں ینگ بلڈ ہوتا ہے چڑھتا خون ہوتا ہے۔
(10)آپ لوگوں کے لئے تنکا بنیں پھانس نہ بنیں کیونکہ تنکا کسی کام میں آجاتا ہے جبکہ پھانس چبھتی ہے ،اگر آپ میں پھانس والی طبیعت ہے تو آپ کو کوئی قبول نہیں کرے گا۔
(11)انسان کی عادات بڑی اہمیت رکھتی ہیں اگر آپ کا چہرہ اور جسم خوبصورت ہے مگر عادتیں بری ہیں اور لوگوں کو تکلیف دیتی ہیں تو عوام ایسے شخص کو قبول نہیں کرتی ۔
(12)میڈیا کو چاہئے کہ عوام کو سچ اور حق بتائے اوروہ بات بتائے جو شریعت کے مطابق ہو اور کل بروزِ قیامت اللہ کے سامنے شرمندگی نہ ہو۔
(13)معاشرے کے عہدہ دار اور صاحبِ اقتدار لوگوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ جو موویز اسلام کی تعلیمات کے خلاف اور معاشرے کی اخلاقی اقدار کو تباہ کرتی ہیں ان پر پابندی عائد کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کریں ۔
(14)میڈیا پر آنے والے افراد کی چھان بین ہونی چاہئے، ہم ائیر پورٹ پر دیکھتے ہیں کہ ایک بندہ واک تھرو گیٹ سے گزرتا ہے پھر مشینوں کے ذریعے اس کی چیکنگ ہوتی ہے پھر سی سی ٹی وی کیمروں کے ذریعے بھی بندوں کو دیکھا جارہا ہوتا ہے تو جب جان کی حفاظت کے لئے اتنا اہتمام کیا جاتا ہے تو ایمان کی حفاظت کے لئےبھی میڈیا پر آنے والے کی چیکنگ ہونی چاہئے۔
(15)لوگوں کا رجحان نیکیوں کی طرف کم ہوتا ہے اور گناہوں کی طرف زیادہ ہوتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ جنت کو تکالیف اور پریشانیوں میں گھیرا ہوا ہے اور جہنم کو آسائشوں اور خواہشوں کی پیروی میں گھیر دیا گیا ہے، تو اس وجہ سے جہنم کی طرف بڑھنے والوں کی تعداد ہمیں زیادہ نظر آتی ہے۔
(16)نیکیوں کی عادت اور گناہوں سے چھٹکارے کے لئے ماحول کی تبدیلی ضروری ہے ،اگر آپ نیکیوں بھرے ماحول میں رہیں گے تو نیکیاں آپ کی عادت کا حصہ بن جائیں گی اسی طرح گناہ بھرے ماحول میں رہنے سے گناہ بھی عادت کا حصہ بن جاتے ہیں۔
(17)ایمان اور اعتقاد کی بنیاد پر اعمال کی عمارت کھڑی ہوتی ہے ،غیر مسلم بظاہر اچھے نظر آنے والے اعمال کرتا ہے مگر اس کو ثواب نہیں ملتاکیونکہ اس کا ایمان نہیں ہے ۔
(18)اگر کسی چیز کے بارے میں فیصلہ کرنا ہوتو پہلے تحمل سے سوچئے،کسی سے مشاورت کرنی ہو تو کیجئے فوراً کسی بات کا فیصلہ کرنے کے بعد بعض اوقات افسوس ہوتا ہے ۔
(19)اگر کوئی ظاہری طور پر مذہبی حلیے میں ہو اور وہ بداخلاق ہوتو لوگ اس کی برائی کرتے ہیں اور جو مذہبی حلیے میں نہ ہو لیکن اچھے اخلاق کا مالک ہو تو لوگ اس کی تعریف کرتے ہیں ۔
(20)صرف مسکرا کر یاخندہ پیشانی سے ملاقات کرنا یہ اخلاق نہیں ہے بلکہ اخلاق میں صبر بھی ہے،استقامت بھی ہے،لوگوں کے حقوق کی ادائیگی بھی ہے ،اخلاق میں معاف کرنا بھی ہے ۔
(21)تبلیغ کا بنیادی فائدہ یہ ہے کہ لوگ اس کا اثر قبول کریں ،اثر بندہ اسی کا قبول کرتا ہے جس سے متاثر ہے۔
(22)تعلیم مکمل ہونے پر سرٹیفکیٹ اور ڈگری ملنے کے بعد بندے کےانداز میں کچھ تبدیلی آجاتی ہے ،اگر یہ تبدیلی مثبت ہے تو آپ کو اور آپ کے ساتھ والوں کو فائدہ پہنچاتی ہے اور اگر منفی تبدیلی ہے تو آپ کو اور آپ کے ساتھ والوں کو نقصان ہوتا ہے ۔
(23) ڈگری ملنے کے بعد انسان کو تواضع اختیار کرنا چاہئے، تکبر سے بچنا چاہئے، اپنی بات کو فوقیت دینے والے انداز سے بچنا چاہئے کیونکہ یہ ایسی بری عادات ہیں کہ جس قابل ترین آدمی کے اندر ہوں گی تو لوگوں کو اس سے دور کردیتی ہیں۔
(24)جس کے منہ سے بدبو آتی ہو تو لوگ اس کے بھی دوست بن جاتے ہیں مگر جس کے کردار سے بد بو آئے تو لوگ اس کے دوست نہیں بنتے۔
(25)مجلس کی جو باتیں صرف شرکائے مجلس ہی کے لئے ہوں تو وہ باتیں امانت ہوتی ہیں جو باہر کسی سے نہیں کرنی ہوتیں اگر کوئی کرتا ہے تو خیانت کرتا ہے ۔
(26)اگر کسی کا سوال چبھتا ہوا ہو تو اس کا جواب چبھتا ہوا نہیں ہونا چاہئے کیونکہ آگ پانی سے بجھتی ہے ، آگ سے نہیں بجھتی۔
Comments