غوثِ اعظم رحمۃاللہ علیہ اور تفسیرِ قراٰنِ کریم

تذکرۂ صالحین

غوثِ اعظم اور تفسیرِ قراٰنِ کریم

*مولانا گل فراز عطاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ اکتوبر 2024

حضور غوثِ اعظم شیخ عبدُالقادر جیلانی رحمۃُ اللہِ علیہ نے وعظ و نصیحت اور علم کی تدریس کے ذریعے قراٰن و حدیث کی بڑی خدمت کی اور اس میں بلندیوں تک پہنچے۔ حضور غوثِ اعظم رحمۃُ اللہِ علیہ نے تدریس کا آغاز شیخ حنابلہ حضرت ابوسعد مُخَرَّمی رحمۃُ اللہِ علیہ کے قائم کردہ مدرسہ سے کیا۔ آپ رحمۃُ اللہِ علیہ کی شہرت اتنی بڑھی کہ لوگوں کی بڑی تعداد آپ سے علم حاصل کرنے لگی یہاں تک کہ مدرسے میں توسیع کرنا پڑی۔([i]) پھر یہ عظیمُ الشان مدرسہ آپ کے اسمِ گرامی کی نسبت سے مدرسہ قادریہ کے نام سے مشہور ہوگیا جو ابھی تک اسی نام سے موجود ہے۔([ii])

حضور غوثِ اعظم رحمۃُ اللہِ علیہ نے 528ہجری سے 561ہجری تک 35سال اپنے مدرسے میں تدریس و افتا کا کام سرانجام دیا۔ آپ جو کچھ مجلس میں فرماتے وہ چار سو عالم وغیرہ کی دواتوں سے لکھا جاتا تھا۔([iii]) شیخ امام مُوَفَّقُ الدِّین بن قُدامَہ رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: ہم 561ہجری میں بغداد شریف گئے تو ہم نے دیکھا کہ شیخ سیِّد عبدُالقادر جیلانی رحمۃُ اللہِ علیہ اُن میں سے ہیں کہ جن کو وہاں پر علم و عمل اور فتویٰ نویسی کی بادشاہت دی گئی ہے۔([iv]) آپ کی عِلمی مہارت کا یہ عالَم تھا کہ اگر آپ سے اِنتہائی مشکل مسائل بھی پوچھے جاتے تو آپ اُن مسائل کا نہایت آسان اور عُمدہ جواب دیتے، آپ نے درس و تدریس اور فتویٰ نویسی میں تین دہائیوں سے زیادہ دینِ متین کی خدمت سرانجام دی۔([v])

تیرہ علوم میں تدریس: حضور غوثِ اعظم رحمۃُ اللہِ علیہ فقہ، حدیث، تفسیر، نحو جیسے 13مضامین(Subjects)کی تدریس فرماتے۔ بعدِ نمازِ ظہر قراءتِ قراٰن جیسا اہم مضمون پڑھاتے۔([vi]) آپ رحمۃُ اللہِ علیہ سے اکتسابِ فیض کرنے والے طلبہ کی تعداد بہت زیادہ ہے جن میں فقہا اور محدثین کی بڑی تعداد شامل ہے۔([vii]) علّامہ شعرانی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: حضور غوثِ اعظم رحمۃُ اللہِ علیہ کے مدرسہ عالیہ میں لوگ آپ سے تفسیر، حدیث، فقہ اور علمُ الکلام پڑھتے تھے، صبح و شام دونوں وقت لوگوں کو تفسیر، حدیث، فقہ، کلام، اُصول اور نحو پڑھاتے تھے اور ظہر کے بعد قرأتوں کے ساتھ قراٰنِ مجید پڑھاتے تھے۔([viii])

حضور غوثِ اعظم رحمۃُ اللہِ علیہ قراٰن و حدیث پر عمل کرنے کی ترغیب دلایا کرتے تھے۔چنانچہ حضور غوثِ اعظم رحمۃُ اللہِ علیہ نے ایک دن مدرسہ قادریہ میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا: اے اللہ کے بندے! تو قراٰن پر عمل کر یہ تجھے اس کے نازل کرنے والے کے پاس لے جاکر کھڑا کردے گا اور تو سنّتِ مبارکہ پر عمل کر کیونکہ یہ تجھے سرکارِ دوعالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پاس لے جاکر کھڑا کرے گی۔([ix])

بہجۃُ الاسرار میں ہے: حافظِ حدیث حضرت ابوالعباس احمد بن احمد بغدادی بندلجی رحمۃُ اللہِ علیہ نے امام اِبنِ جوزی رحمۃُ اللہِ علیہ کے صاحبزادے سے فرمایا:میں اور تمہارے والد ایک دن حضرت شیخ سیّد عبدُالقادر جیلانی رحمۃُ اللہِ علیہ کی مجلس میں حاضر ہوئے آپ رحمۃُ اللہِ علیہ نے ایک آیت کی تفسیر میں ایک معنیٰ بیان فرمایا تو میں نے تمہارے والد سے کہا: یہ معنیٰ آپ جانتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ہاں۔ پھر آپ رحمۃُ اللہِ علیہ نے دوسرا معنی بیان فرمایا تو میں نے دوبارہ تمہارے والد سے پوچھا کہ کیا آپ اس معنیٰ کو جانتے ہیں؟ تو انہوں نے فرمایا: ہاں۔ پھر آپ رحمۃُ اللہِ علیہ نے ایک اور معنیٰ بیان فرمایاتو میں نے تمہارے والد سے پھر پوچھا کہ آپ اس کا معنیٰ جانتے ہیں۔انہوں نے فرمایا: ہاں! آپ رحمۃُ اللہِ علیہ نے کل گیارہ معانی بیان کئے اور میں ہر بار تمہارے والد سے پوچھتا تھا کہ کیاآپ ان معانی سے واقف ہیں؟ تو وہ یہی کہتے کہ میں ان معنوں سے واقف ہوں۔پھر غوثِ اعظم رحمۃُ اللہِ علیہ نے مزید معنی بیان کرنا شروع کئے یہاں تک کہ آپ رحمۃُ اللہِ علیہ نے پورے چالیس معانی بیان کردئیےجو نہایت عمدہ اور بہترین تھے اور اس کا ہر معنیٰ اس کے قائل کی طرف منسوب کرتے تھے۔ گیارہ کے بعد ہر معنیٰ کے بارے میں تمہارے والد کہتے تھے: میں اس سے واقف نہیں ہوں یہاں تک کہ شیخ کی وسعتِ علم سے ان کا تعجب بڑھ گیا۔([x])

قراٰنِ پاک کو پڑھنے کا اصل مقصد: حضور غوثِ اعظم رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: قراٰنِ پاک کی تعظیم و تقدیس کے پیشِ نظر اس کو گانے والوں کی طرح گاکر پڑھنا مکروہ ہے،اس کی کراہت کی وجہ یہ ہے کہ گا کر پڑھنے سے کلام اپنی اصلی حالت سے تجاوز کرجاتا ہے یعنی مَد اور ہمزہ ساقط ہوجاتے ہیں۔جن حروف کو لمبا کرکے پڑھنا ہوتا ہے گانے کی طرز میں وہ مختصر ہوجاتے ہیں اور جنہیں مختصر کرنا ہوتا ہے وہ طویل ہوجاتے ہیں اور اکثر حروف مدغم ہوجاتے ہیں۔ کراہت کی ایک وجہ یہ بھی ہےکہ قراٰنِ پاک پڑھنے کا اصل مقصد تو یہ ہے کہ اس سے خوفِ خدا پیدا ہو،نصیحت کی باتیں سُن کر سننے والے کو نافرمانی سے ڈر لگےاور قراٰنی دلائل و براہین، قصص اور امثال سُن کر عبرت حاصل ہو۔ اللہ پاک کے ان وعدوں کا جو قراٰن میں کئے گئے امیدوار بنے۔یہ تمام فوائد گاکر پڑھنے میں ختم ہوجاتے ہیں۔([xi])

لفظ ”طارق“ کی تفسیر: حضور غوثِ اعظم رحمۃُ اللہِ علیہ

(وَالسَّمَآءِ وَالطَّارِقِۙ(۱))

(ترجَمۂ کنزُالایمان: آسمان کی قسم اور رات کو آنے والے کی۔([xii]))

 کی تفسیر میں فرماتے ہیں:اللہ پاک نے آسمان اور اس میں چلنے والے کی قسم یاد فرمائی ہے۔آسمان پر جو چلے وہ حضرت محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ذاتِ مقدس ہے۔ پہلے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ہمتِ عُلیا نے آسمان پر ترقی کی پھر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے جسم مبارک نے۔ یعنی ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ساتویں آسمان تک عروج کیا اور اللہ پاک سے کلام کیا اور آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے سرمبارک کی آنکھوں سے اللہ پاک کا دیدار کیا اور آپ کے قلبِ اطہر کی آنکھوں نے بھی دیدار کیا۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اس کے وہ خاص بندے ہیں جو رات کو آسمانوں کی سیر کو تشریف لے گئے۔ زمین پر اللہ پاک کا دیدار قلبِ اطہر سے کیا اور آسمان میں اللہ پاک کا دیدار سر کی آنکھوں سے کیا۔([xiii])

اللہ اور غیر کی محبت ایک دل میں جمع نہیں ہوسکتی: حضور غوثِ اعظم رحمۃُ اللہِ علیہ نے جمعہ کے دن مدرسہ قادریہ میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا:اللہ پاک کی محبت اور اس کے غیر کی محبت دونوں ایک دل میں جمع نہیں ہوسکتیں۔ اللہ پاک کا ارشاد ہے:

(مَا جَعَلَ اللّٰهُ لِرَجُلٍ مِّنْ قَلْبَیْنِ فِیْ جَوْفِهٖۚ-)

(ترجَمۂ کنزُالایمان:اللہ نے کسی آدمی کے اندر دو دل نہ رکھے۔([xiv]))

چنانچہ دنیا اور آخرت دونوں ایک دل میں جمع نہیں ہوسکتے اور نہ ہی خالق و مخلوق دونوں ایک دل میں جمع ہوسکتے ہیں تو تُو تمام فنا ہونے والی چیزوں کو چھوڑ دے تاکہ تجھے ایسی چیز حاصل ہوجائے کہ جس کے لئے فنا ہی نہیں ہے اور تُو اپنے نفس اور مال کو خرچ کر تاکہ تجھے جنت حاصل ہوجائے۔([xv])

اللہ کریم ہمیں حضور غوثِ اعظم رحمۃُ اللہِ علیہ کے صدقے قراٰنِ کریم کی محبت اور تلاوتِ قراٰنِ کریم کا ذوق عطا فرمائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ شعبہ تراجم، اسلامک ریسرچ سنٹر المدینۃ العلمیہ کراچی



([i])المنتظم،18/173

([ii])سیرت غوث اعظم، ص60

([iii])کلیات نور بخش توکلی،ص402

([iv])بھجۃ الاسرار، ص225

([v])بھجۃ الاسرار، ص225 ملتقطاً

([vi])قلائد الجواھر،ص38

([vii])مراٰۃ الجنان،3/267

([viii])بھجۃ الاسرار،225،غوث پاک کے حالات،ص27

([ix])الفتح الربانی،ص67

([x])بھجۃ الاسرار، ص224

([xi])غنیۃ الطالبین،ص84

([xii])پ30، الطارق:1

([xiii])الفتح الربانی، ص243

([xiv])پ21،الاحزاب:4

([xv])الفتح الربانی، المجلس الرابع والعشرون، ص94


Share