اسلام اور عدل
*مولانا عبدالعزیز عطاری
ماہنامہ فیضانِ مدینہ اکتوبر 2024
دنیا کے نظام کواحسن و خوب انداز کے ساتھ چلانے اور حسنِ معاشرت قائم رکھنے کے لئے اسلام کے دیئے گئے نظام کا ایک بہت ہی اہم حصہ عدل و انصاف بھی ہے۔
عدل اور انصاف معاشرے کو امن و امان فراہم کرنے اور لوگوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ظلم و زیادتی کرنے سے روکنے کا بہترین ذریعہ ہے جس کی بدولت کوئی بھی شخص کسی دوسرے پر ظلم و زیادتی کرنے اور اس کی مال وجان کو نقصان پہنچانے سے گریز کرتا ہے دنیا میں کئی عدل و انصاف کے دعوے دار آئے اور انہوں نے اپنی طرف سے مختلف قسم کے اصول و ضوابط قائم کئے ان سے فائدہ تو ضرور ہوا لیکن مکمل طور پر ان جرائم پر کنڑول پانے میں ناکام رہے بعض تو اپنے اصولوں کی کمزوری اور بعض کسی دوسرے خارجی پہلو سفارش یا پھر کسی دباؤ اور لالچ میں آکر ان میں ناکام دکھائی دئیے لیکن جب حضور علیہ السّلام کی تشریف آوری ہوئی تو آپ نے ان تمام ظالمانہ نظام کا خاتمہ کیا اور ان کے مدِّ مقابل ایسا بہترین اور زبردست قسم کا نظام متعارف کروایا کہ بڑے بڑے مجرم اور جرائم پیشہ افراد بھی اس کے سامنے سر نگوں ہونے پر مجبور ہو گئے اور لوگ اس آفاقی نظام اور اس کی مضبوط دیواروں کو تسلیم کئے بغیر نہ رہ سکے اور آج بھی اگر دنیا میں کوئی مضبوط عدل و انصاف کا نظام ہے تو حقیقی طور پر یہی اسلامی نظام ہے۔
عدل و انصاف کے اسلامی نظام کو سمجھنے کے لئے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اسلام نے عدل و انصاف کے قیام و فروغ کے لئے کیا کیا اقدامات کئے ہیں؟ اگر قراٰنِ کریم، احادیثِ کریمہ اور تاریخِ اسلام کا مطالعہ کریں تو اسلام کے نظامِ عدل و انصاف کے جو مختلف پہلو سامنے آتے ہیں ان میں سے چندیہ ہیں:
* اللہ کریم کے احکامِ عدل کو بیان کرنا
* عدل و انصاف کے فضائل بیان کرنا
* عدل و انصاف کے فقدان پر تنبیہ
* عادل قاضی کے اوصاف بیان کرنا
* عہدۂ قضا کی اہمیت و نزاکت بیان کرنا
* عدلِ اسلامی کی مثالیں
* عدل و انصاف کے ثمرات
عدل و انصاف کرنے کا حکم خداوندی
اللہ پاک نے عدل و انصاف قائم کرنے کی تاکید فرمائی ہے، جس کے متعلق قراٰنِ مجید میں مختلف مقامات پر ارشاد فرمایا:
(1)(اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰۤى اَهْلِهَاۙ-وَ اِذَا حَكَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوْا بِالْعَدْلِؕ-)
ترجَمۂ کنزالایمان: بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں جن کی ہیں انہیں سپرد کرو اور یہ کہ جب تم لوگوں میں فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو۔ ([i])
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
(2) (وَ اِنْ حَكَمْتَ فَاحْكُمْ بَیْنَهُمْ بِالْقِسْطِؕ-اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ(۴۲))
ترجَمۂ کنز الایمان:اور اگر ان میں فیصلہ فرماؤ تو انصاف سے فیصلہ کرو بے شک انصاف والے اللہ کو پسند ہیں۔([ii]) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
(3)(وَ لَا یَجْرِمَنَّكُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰۤى اَلَّا تَعْدِلُوْاؕ-اِعْدِلُوْا هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى٘-)
ترجَمۂ کنز الایمان: اور تم کو کسی قوم کی عداوت(دشمنی) اس پر نہ ابھارے کہ انصاف نہ کرو انصاف کرو وہ پرہیزگاری سے زیادہ قریب ہے۔([iii])
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
(4) (وَ اُمِرْتُ لِاَعْدِلَ بَیْنَكُمْؕ )
ترجَمۂ کنز الایمان: اور مجھے حکم ہے کہ میں تم میں انصاف کروں ۔([iv])
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
(5)(قُلْ اَمَرَ رَبِّیْ بِالْقِسْطِ)
ترجَمۂ کنزالایمان:تم فرماؤ میرے رب نے انصاف کا حکم دیا ہے۔([v])
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
(1)عادل بادشاہ کی دعا قبول ہوتی ہے۔ ([vi])
(2)لوگوں کے درمیان انصاف کرنا بھی صدقہ ہے۔([vii])
(3)سلطان عدل کرے تو اس کے لئے اجر ہے۔([viii])
(4)قیامت کے دن لوگوں میں سے اﷲ پا ک کو زیادہ پیارا اور اس کے زیادہ قریب وہ ہو گا جو انصاف کرنے والا حکمران ہو گا۔([ix])
(5)انصاف کرنے والے بادشاہ بروز قیامت اللہ پاک کے قرب میں عرش کے دائیں جانب نور کے منبروں پر ہوں گے اور یہ وہ ہوں گے جواپنی رعایا اور اہل و عیال کے درمیان فیصلہ کرتے وقت عدل وانصاف سے کام لیتے تھے۔ ([x])
(1)جس قوم میں حق کے ساتھ فیصلہ نہیں کیا جاتا اور کمزور شخص طاقتور سے بے تکلف اپنا حق وصول نہیں کرسکتا اللہ پاک اس قوم کو عزت نہیں دیتا۔([xi]) (2)حضرت عمر فاروق رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں: میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں جب تک تم ان کو خود پر لازم نہ کرلو ہرگز بھلائی نہ پاؤ گے (1)فیصلہ کرنے میں عدل وانصاف سے کام لینا (2)تقسیم کرنے میں عدل وانصاف سے کام لینا اور بے شک میں تمہیں ایک واضح اور سیدھے راستے پر چھوڑکر جا رہاہوں مگر یہ کہ قوم ٹیڑھی ہوئی تو وہ راستہ بھی ان کے سبب ٹیڑھا ہوجائے گا۔([xii])
عادل قاضی کے اوصاف بیان کرنا
قاضی کو کیسا ہونا چاہئے؟
حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: قاضی میں پانچ خصلتیں ہونی چاہئیں: (1)سابقہ حالات و ادوار سے واقف ہو(2)حلم والا ہو (3)خوددار ہو (4)پرہیزگار ہو (5)مشورہ کرنے والا ہو۔ جب یہ پانچ چیزیں قاضی میں پائی جائیں تو وہ قاضی ہے ورنہ انصاف کے نام پر دھبہ ہے۔([xiii])
ایک روایت میں ہے کہ قاضی اسے مقرر کیا جائے جس میں چار خوبیاں ہوں: (1) نرمی ہو لیکن ایسی نرمی بھی نہیں جو کمزوری پر مشتمل ہو(2) سختی ہو مگر ایسی نہیں کہ جس میں شدت ہو(3) کفایت شعار ہو لیکن ایسا نہیں کہ اس میں بخل ہو (4)لحاظ کرنے والا ہو لیکن ایسا نہیں کہ حد سے تجاوز کرجائے کیونکہ ان میں سے ایک بھی صفت ختم ہوگی تو بقیہ تینوں خود بخود ختم ہوجائیں گی۔([xiv])
علما نے فرمایا کہ حاکم کو چاہئے کہ پانچ باتوں میں فریقین کے ساتھ برابر سلوک کرے (1) اپنے پاس آنے میں جیسے ایک کو موقع دے، دوسرے کو بھی دے (2)نشست دونوں کو ایک جیسی دے (3) دونوں کی طرف برابر مُتَوَجِّہ رہے (4)کلام سننے میں ہر ایک کے ساتھ ایک ہی طریقہ رکھے (5)فیصلہ دینے میں حق کی رعایت کرے جس کا دوسرے پر حق ہو پورا پورا دِلائے۔([xv])
طلب کرنے والے کو عہدۂ قضا سپرد نہیں کیا:
حضرت ابو موسیٰ اشعری اور ان کی قوم کے دو شخص حضور علیہ السّلام کے پاس حاضر ہوئے ایک نے کہا: یا رسول اﷲ!مجھے قاضی بنا دیجئے اور دوسرے نے بھی ایسا ہی کہا، آپ نے ارشاد فرمایا: ہم اس کو قاضی نہیں بناتے جو اس کا سوال کرے اور نہ اس کو جو اس کی حرص رکھے۔([xvi])
عہدۂ قضا کی اہمیت و نزاکت بیان کرنا
حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: قاضی تین قسم کے ہوتے ہیں: دو جہنمی، اور ایک جنتی، ایک وہ جو جان بوجھ کرنا حق فیصلے کرے وہ جہنمی ہے، دوسرا جو نہ جانتا ہو اور لوگوں کے حقوق برباد کر دے وہ بھی جہنمی ہے اور تیسرا وہ قاضی ہے جو حق کے ساتھ فیصلے کرے وہ جنتی ہے۔([xvii])
قاضی کا منصب بڑا نازک:
(1) قاضی عادل قیامت کے دن تمنا کرے گا کہ اس نے دو شخصوں کے درمیان ایک پھل کے متعلق بھی فیصلہ نہ کیا ہوتا۔ ([xviii])
(2)حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت مقدام بن معدیکرب رضی اللہُ عنہ کے کندھے پر ہاتھ مار کر فرمایا: اے قُدَیم! تم کامیاب ہوجاؤ گے اگر ایسے مرو کہ نہ حاکم ہو نہ حاکم کے کاتب اور نہ سردار۔([xix])
قاضی بننے سے اجتناب:
حضرت عثمان غنی رضی اللہُ عنہ نے ابن عمر رضی اللہُ عنہما سے فرمایا: جاؤ قاضی بن کر لوگوں کے درمیان فیصلے کرو انہوں نے کہا: امیر المؤمنین! کیا آپ مجھے معاف رکھیں گے؟ آپ نے فرمایا: تم اسے کیوں برا سمجھتے ہو تمہارے باپ تو فیصلے کیا کرتے تھے؟اس پر انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے ہوئے سنا ہے:جو قاضی بنا اور اس نے عدل و انصاف کے ساتھ فیصلے کئے تو لائق ہے کہ وہ اس سے برابر برابر چھوٹ جائے۔ تو اب اس کے بعد میں کیا امید رکھوں؟([xx]) یعنی عادل و منصف قاضی کے لیے یہ ہی غنیمت ہے کہ کل قیامت میں اس کا چھٹکارا ہوجائے کہ نہ پکڑ ہو نہ ثواب ملے۔([xxi])
نوٹ: عدلِ اسلامی کی مثالیں اور عدل و انصاف کے ثمرات پر مضمون اگلے ماہ کے شمارے میں شامل کیا جائے گا۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* شعبہ فیضان حدیث، المدینۃ العلمیہ کراچی
Comments