امن کے سب سے بڑے داعی

اَمْن بظاہر ایک چھوٹا سا لفظ ہےمگر گھر میں ہوتو ذِہْنی سکون، معاشرے میں ہو تو جانی و مالی  اطمینان، ملک میں ہو تو قوم کی ترقّی اور خوش حالی کا ضامن اور معاون ہوتا ہے۔ اگرامن عالمی سطح پر ہوتو ہزاروں لاکھوں قیمتی جانوں کے ضائِع ہونے اور اربوں کھربوں روپوں کے نقصانات سے قوموں کو مَحفوظ رکھتا ہے۔ شایددنیا میں کوئی بھی ذِی شُعور و عقلمند شخص ایسا نہیں ہو گا جو اس کی اہمیت و افادیت اور خوبی سے انکار کرے۔ جہاں بدامنی ہوتی ہے وہاں٭ لوگوں کى اَملاک (Properties) کو نقصان پہنچتا ہے٭ قتل و غارت کا بازارگرم ہوتا ہے ٭ عورتیں بىوہ اوربچّے ىتىم ہوجاتے ہیں ٭ ہڑتالوں کی کثرت ہوتی٭ کاروباری طبقہ بِالخصوص روز کماکر کھانے والے مزىد آزمائش میں آجاتے ہیں٭روڈٹوٹ پُھوٹ جاتے ہیں یا بند کردئیے جاتے ہیں جس کی وجہ سے مسافروں خُصُوصاً مریضوں کواسپتال پہنچانے والے مشکل میں گِھرجاتے ہیں، الغرض بدامنى سے دىن و دنىا دونوں کو نقصان پہنچتا ہے۔

اَمْن و سَلامتى کى اہمىت کا اندازہ اس بات سے لگاىا جاسکتا ہے کہ حضرتِ سیّدُنا ابراہىم علیہ السَّلام نے جو دُعائىں کى ہىں، ان مىں سے اىک اہم دُعا ىہ ہے:یَااللہ! اس شہر(مکّہ مکرّمہ) کو اَمْن والا بنادے۔ (پ13، ابرٰھیم:35 ماخوذاً)(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)چاند کو دىکھ کر پڑھی جانے والى دُعا پر غور فرمائىں تو ہمارے آقا صلَّی اللہُ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس دُعا مىں اَمْن و سلامتى کا ذکر کىاہے:اَللّٰہُمَّ اَہِلَّــہٗ عَلَـیْنَا بِالْاَمْنِ وَالْاِیْمَانِ وَالسَّلَامَۃِ وَالْاِسْلَامِ رَبِّیْ وَ رَبُّکَ اللّٰہ ترجمہ:اے اللہ! اسے ہم پر امن وامان ،سلامتی اور اسلام کا چاند بناکرچمکا، اے چاند! میرا اور تیرا رب اللہ  ہے۔ ( دارمی،ج 2،ص7، حدیث:1688)

یوں تو اَمْن کے دعویدار بہت گزرے لیکن انسانوں کی بقا اور معاشرے میں اَمْن و سَلامتی قائم کرنے کے جو اُصول ہمارے پیارے آقارَحْمۃٌ لِّلْعٰلَمین صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم نے عطا فرمائے وہ نہ کوئی مذہب پیش کرسکا اور نہ کبھی کسی قوم کے لیڈر نے دئیے ہیں ۔ اس دنیا میں ایک دور وہ گزرا ہے کہ گویا جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا اُصول لاگو تھا۔ جس شخص کے پاس طاقت ہوتی وہ جو چاہتا کرگزرتا اور کوئی اسے روک نہ پاتا۔ اس طرزِ عمل نے معاشرے کو اندھیرنگری بنا دیا تھا۔ یتیموں ، بیواؤں اور غلاموں پر ظُلْم و سِتم کا بازار گرم تھا، اغواو بدکاری عام تھی، چوری، ڈاکہ زنی اور حَقْدار کو اس کے حق سے محروم کرنا لوگوں کا وتیرہ بن چکا تھا۔ کمزور فریادکرتا رہتا مگراس کی فریاد سُننے والا کوئی نہ ہوتا۔ ایسے گھٹن زدہ وَحْشت ناک ماحول میں اللہ پاک نے سِسکتی انسانیت پر رَحْم فرمایا اوررَحْمتِ عالَم، رسولِ محتشم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم اَمْن کے سب سے بڑے داعی بن کر اس دنیا میں جلوہ گر ہوئے اورحق و صداقت اور امن و عافیت کا پرچم بُلند فرمادیا۔ ٭معاشرے کے امن و سکون کو برباد کرنے والوں کو اس عمل سے روکنے کے لئے شَرْعی سزاؤں کا نِفاذ کیا ٭چوری، بدکاری اور شراب نوشی جیسے گھناؤنے افعال کی سزائیں مقرّر کیں٭ناجائز طریقے سے ایک دوسرے کا مال کھانے، سُود خوری اور جُوئے کو حرام قرار دیا ٭ایک شخص کے ناحق قتل کوگویا ساری انسانیت کا قتل قرار دیا ٭عرب قبائل میں اتحاد و اتفاق پیدا کیا٭غیر مسلم سے بھی بد عہدی اور وعدہ خلافی کو ممنوع قرار دیا ٭نہ صرف خود مظلوموں کی دادرَسی کی بلکہ انسانیت کی بقا کیلئے یتیموں، بیواؤں، مسکینوں اور غریبوں کی کفالت کے فضائل بیان کئے نیز ٭عورتوں، بچّوں، غلاموں اور بوڑھوں کے الگ الگ حقوق ذکر کرکے معاشرے کو اعتِدال کی راہ پر گامزن فرمایا۔ یہاں تک کہ بدامنی کی لہر کو روکنے کے لئے یہ کلمات فرمائے:جب تم میں سے کوئی فوت ہو جائے تو اسےمعاف رکھو اور اس کی بُرائی مت کرو۔ (ابو داؤد،ج4،ص359، حدیث:4899) اعلانِِ نبوت کے بعد اپنی 13 سالہ مکّی زندگی کفّار و مشرکین کے ظُلْم و سِتم سہتے ہوئے گزاری،آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم چاہتے تو فتحِ مکّہ کے موقع پر ایک ایک شخص سے ظلم کا حساب لے لیتے مگر اپنے جانی دشمنوں کو بھی مُعاف کرکے عَفْو و دَرْگُزر اور امن و امان کی اعلیٰ مِثال قائم کی۔ جہاں تلوار و بازوئے طاقت سے کام لیا تو وہاں بھی انسانیت کو اس کی معراج تک پہنچانے، حقوقِ انسانی میں مساوات ،عَدْل و اِنْصاف اور اَمْن و امان کا نظام قائم کرنے کے عظیم مقاصِد کارفرما تھے اور اتنا ہی نہیں بلکہ اپنے صَحابہ کی ایسی بہترین تربیَت فرمائی کہ بعد میں آنے والے حکمران ان کے نَقْشِ قدم پر چل کر ملکی و قومی اور معاشرتی سطح پر امن و امان قائم کرتے نظر آئے۔ جس تیزی کے ساتھ دین ِاسلام کو قبول کیا گیا اور ابھی تک اس کے ماننے والوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اس کی مثال کسی اور مذہب میں نہیں ملتی۔ اسلام انسانوں کی بقا، سَلامتی اور معاشرے میں امن و امان کا سب سے بڑاعَلَم بردار ہے۔

یاد رکھئے !امن کو ہر سطح پر نافِذ کرنا اور پھر اسے برقرار رکھنا یقینا ً ایک مشکل مرحلہ ہے۔ اگر ہم امن و امان اور فلاح و کامیابی چاہتے ہیں تو ہم سب کوامن کے سب سے بڑے داعی، محسنِ انسانیت، نبیِ رَحْمت صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کے عطا کردہ اصولوں اور شریعت کی پاسداری کرنی پڑے گی، اس کے علاوہ ہمارے پاس اور کوئی چارہ نہیں ہے۔ آئيے دعا کريں:اے اللہ کريم! ہمارے دىن و اىمان ، جان و مال اور عِزت و آبرو کى حفاظت فرمااور ہمىں اورہمارے شہروں کو اَمْن و سلامتى عطا فرما۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭… دعوت اسلامی کی مرکزی شوریٰ  کے نگران مولانا محمد عمران عطاری


Share