فریاد
کام کی باتیں
*دعوتِ اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ کے نگران مولانا محمد عمران عطّاری
ماہنامہ فیضانِ مدینہ جولائی 2024ء
دعوتِ اسلامی کی مرکزی مجلسِ شوریٰ کے نگران حضرت مولانا حاجی محمد عمران عطّاری ملک و بیرون ملک مختلف دینی اجتماعات میں بیانات کرتے رہتے ہیں۔ جن میں نصیحت، تربیت، اصلاح اور روزمَرَّہ زندگی کے کئی پہلوؤں پر سوچنے، سمجھنے اور عمل کرنے کے اہم نکات شامل ہوتے ہیں۔ ذیل میں انہی میں سے چند باتیں پیش کی جا رہی ہیں:
(1)انسان کبھی اپنی کم علمی،کبھی لالچ اورکبھی بھولپن کی وجہ سے دھوکے میں مبتلا ہوجاتا ہے،مگر اصل نادان وہ ہے جو ایک بار دھوکہ کھانے کے بعد بھی اس سے سبق نہ سیکھے، کیونکہ (حدیثِ پاک میں ہے) مومن ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جاتا۔
(مسلم، ص1222، حدیث : 7498 )
(2)پراپرٹی وغیرہ کی خریداری کے وقت اس کی Verification اورCertification کیجئے کہ وہ پیپر Fake (جعلی) نہ ہوں اوراس بارے میں کچھ اچھے لوگوں سے مشورہ بھی کرلیجئے کیونکہ مشورہ کریں گے تو اِن شآءَ اللہ اس کا فائدہ ہوگا۔
(3)کسی بزنس میں Investment کرنے سے پہلےاس بارے میں شرعی راہنمائی ضرور حاصل کیجئے کہ بعض اوقات نفع کی صورت میں جوپیسہ آتا ہے وہ سود ہوتا ہے،لہٰذا اس سے بچنے کے لئے شرعی اصولوں کو پیشِ نظر رکھنا ہوگا ورنہ سود کی نحوست سے اصل رقم بھی برباد ہوجائے گی۔
(4)کسی سے لین دین کا معاملہ کرنا ہو تو Black and white (ہر ایک بات) پہلے سے لکھی ہونی چاہئے،تاکہ مرنے کے بعد ہمارے لئے آزمائش نہ ہو کیونکہ اگر قبر میں کسی کا قرضہ لے کر گئے تو کیا ہوگا۔
(5) جب کسی قریبی شخص سے بھی معاہدہ کرنا ہو تو اس وقت اجنبی بن کر معاہدہ کیجئے اورپہلے ہی یہ طے کرلیجئے کہ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا،کیونکہ آج اگر اپنائیت والا ماحول رکھیں گے تو کل جلد ہی اجنبی ہوجائیں گےاور آج اجنبیت رکھیں گے تو کل آپ کی اپنائیت باقی رہے گی۔
(6)والد صاحب کی باتوں کو Ignore (نظر انداز)مت کیجئے کیونکہ ان کی عمر اور آپ کی عمر میں کافی فرق ہے، انہوں نے معاشرے کی کئی چوٹیں کھائی ہوئی ہیں،دنیا دیکھی ہوئی ہے،ممکن ہے ہر چیز کے بارے میں ان کا اپنا تجربہ نہ ہو لیکن ہوسکتا ہے وہ اپنے ساتھ والے چار آدمیوں کا تجربہ آپ کے ساتھ شیئر کررہے ہوں،لہٰذا ہمیشہ بڑے بزرگوں کی باتوں کو اہمیت دینی چاہئے۔
(7)کوئی کسی کو کماکر نہیں دیتا،اس کا مطلب یہ ہےکہ اگر کاروبار کو بڑھانا ہے تواس میں چیک اینڈ بیلنس رکھنا ہوگااور ملازمین سے پوچھ گچھ بھی کرنی ہوگی کہ میرا کتنا پیسہ ہے اور کہاں کہاں رکھا ہوا ہے تاکہ آپ نقصان سے بچ سکیں۔ چیک اینڈ بیلنس صرف کاروبار میں ہی نہیں بلکہ کھانے پینے،اٹھنے بیٹھنے،اپنی فیملی حتّٰی کہ اپنی ذات میں بھی رکھنا ضروری ہے۔
(8)سب سے بڑے پچھتاوے کی بات یہ ہے کہ جب بندہ قبر میں جائے تو اس کے پاس نیک اعمال نہ ہوں۔
(9)آپ پیسہ جہاں بھی Invest کرلیں ہرجگہ یہ شک ہے کہ واپس ملے گا یا نہیں،ایک ایسی جگہ ہے جہاں کوئی شک نہیں، وہ ہے راہِ خدا میں خرچ کرنا، ہم اللہ پاک کی راہ میں خرچ کریں گے اپنی اوقات کے مطابق مگر اللہ پاک ہمیں اس کا بدلہ دے گا اپنی شان کے مطابق۔
(10)فرض کیجئے کہ آپ بیرونِ ملک میں ہوں اوروہاں سے (پیسےوغیرہ) کچھ بھیجتے رہیں اورجب یہاں اپنے ملک آئیں تو پتا چلے کہ یہاں تو کچھ بھی نہیں آیا،اسی طرح غورکیجئے کہ ابھی آپ دنیا میں ہیں،جب دنیا چھوڑ کر چلے جائیں گے، وہاں پہنچ کر پتا چلے کہ دنیامیں جو نیک اعمال میں کرتا رہا اس میں سے تویہاں کچھ بھی نہیں پہنچ سکا،سارے اعمال تو میری رکایاری اور بدنیتی کی نذر ہوگئے، تواس وقت کی حسرت، پچھتاوا اور شرمندگی کس قدر ہوگی!!
(11)گھر کی بعض بڑی بوڑھیوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ گھریلو کاموں میں اپنی بیٹی یا بہو پر بےجا تنقید کرتی ہیں،ان کے حوصلے توڑتی ہیں اور انہیں یہ طعنہ دیتی ہیں کہ ہم تو اتنے کام کرلیا کرتی تھیں،تم ہمارے جیسے کام کیا کرسکو گی۔اگر یہ بچیاں ان باتوں سے تنگ آکر گھر کے کام کاج چھوڑ دیں تو آپ کیا کریں گی؟لہٰذا ان کی حوصلہ افزائی کیجئے اور اپنے ماضی کی ایسی بات جس میں کوئی سبق ہو تو کبھی کبھار ایک اچھے انداز سے کہہ دیجئے،بار بار تنقید کرنے سےآپس کے تعلقات اور گھر کا ماحول خراب ہوتا ہے۔
(12)اگر کوئی اس دور میں بھی والدین یا بڑے بوڑھوں کے ساتھ رہتا ہے تو بڑے بوڑھوں سے میری درخواست ہے کہ اس کو غنیمت جانئے اور ان کے کاموں پر روک ٹوک نہ کیجئے، امیرِ اہلِ سنّت حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطّار قادری دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ اس موقع پر یہ مثال دیتے ہیں کہ اگر وہ ناک سے بھی کھائیں تو یہ نہ کہیں کہ منہ سے کھاؤ،کیونکہ اب اتنی برداشت نہیں ہے لہٰذا بڑوں کو چاہئے کہ شفقت ومحبت سے بات کریں۔
(13)اولاد اگر والد صاحب کو وقت نہیں دیتی تو والد صاحب کو اولاد کی عمر کے مطابق کچھ دلچسپ اور پر مغز گفتگو کرنے کا مزاج بنانا چاہئےاگر وہ روک ٹوک اور ہر وقت نصیحتیں کرنےکا مزاج رکھیں گے تو اولاد آپ کے پاس نہیں بیٹھے گی۔
(14) کم ظرف ہے وہ اولاد جو اپنے والدین سے یہ کہتی ہے کہ آپ نے ہمارے لئے کیاہی کیا ہے؟والدین نے اولاد کی خواہشوں کو پورا کیا ہے،بچے اپنے ان دوستوں کو دیکھتے ہیں جن کے والدین نے انہیں گاڑیاں بنگلے بنا کردئیے لیکن ان بچوں کو نہیں دیکھتے جو مزدوریاں کر تے ہیں،روڈوں پر گھوم رہے ہوتےہیں۔ لہٰذا والدین سے یہ کہنا کم علمی اور کم ظرفی ہے اور اس میں والدین کی سخت دل آزاری ہے۔
(15)جھوٹ ایک ایسی بری عادت ہے کہ جس کے بارے میں پتا چل جائے کہ یہ جھوٹ بولتا ہے تو پھر اس پرکسی کا اعتماد قائم نہیں رہتا۔
(16)جھوٹ بولنے سے گھر کا ماحول خراب ہوتا ہے لہٰذا ہمیشہ سچ بولیں کیونکہ ”سانچ کو آنچ نہیں “سچ بولنے میں بعض اوقات بندہ تنگ گلی میں داخل ہوتا ہے مگر آگے راستہ کشادہ ہوتاہے اور جھوٹ بولنے میں بظاہر کشادہ راستے میں داخل ہوتا ہے مگر آگے تنگ ہوتے ہوتے راستہ بند ہوجاتا ہے۔
(17)ایک بارآپ کسی کے اعتماد کا شیشہ توڑ دیں تو وہ جڑ نہیں سکتا،جڑ بھی جائے تو دراڑ پھر بھی باقی رہتی ہے،یہ آپ کی پہچان بن جائے گی، آپ توبہ کرکے چاہے ولایت کی منزلیں طے کرلیں لیکن لوگوں میں پھر وہ پوزیشن بہت مشکل سے بنتی ہے۔
(18)اپنی عزت بچانے کے لئے دوسروں کی عزت کو داؤ پر لگانا بہت بری عادت ہے کہ آپ دوسروں کی بے عزتی میں اپنی عزت تلاش کررہے ہیں۔
(19)اولاد کو یہ سوچنا چاہئے کہ والد صاحب میرے بچپن میں ٹائم نکال کر ہم سے وہ باتیں کرتے تھے جس سے ہمارے چہرے پر مسکراہٹ آتی تھی تو آج ہمیں بھی ان سے ایسی ہی باتیں کرنی چاہئیں جن سے ان کے چہرے پر مسکراہٹ آجائے۔
Comments