تعارف حضرت سیّدُنا عبداللہبن عبد المطّلب رضی اللہ تعالٰی عنہما حضور نبیِّ کریم، رءوفٌ رَّحیم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے والدِ محترم ہیں۔ آپ کا اسمِ گرامی عبداللہ، کنیت ابوقُثَم (خیر و برکت سمیٹنے والے)، ابومحمد، ابواحمد اور لقب ذبیح ہے۔([1]) آپ کے والدِ گرامی عبد المطلب قریشِ مکّہ کے راہنما اور بنوہاشم کے سردار تھے ان کا اصل نام شَیبَہ ہے اور لوگ اچھے کاموں کی وجہ سے انہیں شَیْبَۃُ الْحَمْدْ کہتے تھے۔([2]) والدہ ماجدہ کا اسمِ گرامی فاطمہ بنتِ عمرو ہے۔([3]) بہن بھائی حضرت سیّدنا عبد المطلب رضی اللہ تعالٰی عنہ نے مختلف اوقات میں 6 شادیاں کی تھیں اس لئے حضرت سیدنا عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے بہن بھائیوں کی تعداد 20 ہے، حقیقی بھائیوں کی تعداد3اور حقیقی بہنوں کی تعداد 5 ہے، جبکہ علاتی(یعنی باپ شریک) بھائی11اور علاتی بہن 1ہے۔([4]) منّت مانی حضرت عبد المطلب رضی اللہ تعالٰی عنہ نےیہ منّت مانی تھی کہ اگر ان کے دس بیٹے ہوں اور وہ بڑے ہو کر قریش کی حفاظت کریں تو ان میں سے ایک کو رضائے الٰہی کے لئے بیتُ اللہ کے پاس ذَبْحْ کریں گے۔ جب ان کی منت پوری ہوگئی تو انہوں نے اپنے بیٹوں کو جمع کیا اور اپنی منّت کی خبر دے کر یہ منت پوری کرنے کوکہا، سب نے والد کے حکم کے سامنے سرِ تسلیم خم کیا۔ قرعہ اندازی ان دس بیٹوں کے نام کا قرعہ ڈالا گیا تو حضرت سیدنا عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کانام قرعہ میں نکلا۔ حضرت عبدالمطلب رضی اللہ تعالٰی عنہ انہیں ذَبح کرنے کیلئے حرمِ محترم لے آئے اس موقع پر قریش نے ان سے درخواست کی کہ ان کو ذَبح نہ کیجئے جب تک آپ مجبور نہ ہو جائیں۔ اگر آپ ایسا کریں گے تو ہر شخص اپنے بچّے کو لایا کرے گا کہ اس کو ذبح کرے۔ 100 اونٹ ذبح کئے پھرقریش نے ایک تجویز پیش کی کہ ان کو ذبح نہ کیجئے بلکہ انہیں حجازلے چلئے وہاں ایک کاہنہ عورت ہے آپ اس سے مسئلہ بیان کریں، اگر اس نے بھی ان کو ذبح کرنے کا حکم دیا تو پھر آپ کو اپنے صاحبزادے کے ذبح کرنےکا مکمل اختیِار ہو گا اور اگر اس نے کوئی ایسا حل پیش کیا جس سے آپ کی منت بھی پوری ہو جائے اور عبداللہ ذَبح ہونے سے بھی بچ جائیں تو آپ اس تجویز کو قبول فرما لیجئے۔ پھر سب اس عورت کے پاس پہنچ گئے اور سارا ماجرا سنایا۔اس عورت نے کہا کہ تمہارے ہاں جو دِیت کی مقدار مقرّر ہے یعنی دس اونٹ،تم اونٹوں اور ان کے درمیان قُرعہ اندازی کرو اور اگر لڑکے کے نام کا قرعہ نکلے تو اونٹوں کی مقدار بڑھا دو اور اس طرح کرتے رہو یہاں تک کہ تمہارا پَرْوَرْدَگار راضی ہو جائے اور اونٹوں پر قُرعہ نکل آئے۔ پھر اس لڑکے کی بجائے وہ اونٹ ذبح کر دینا اس طرح تمہارا رب بھی تم سے راضی ہوجائے گا اور تمہارا لڑکا بھی بچ جائے گا۔ یہ سُن کر سب مکّۂ مکرّمہ پہنچے اور حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ اور دس اونٹوں کے درمیان قرعہ اندازی ہوئی تو حضرت عبداللہ کا نام آیا۔ دس اونٹ زیادہ کئے اور جب بڑھاتے بڑھاتے اونٹوں کی تعداد سو ہو گئی تو تب اونٹوں کےنام قُرعہ نکلا۔ وہاں موجود قریش اور دوسرے لوگوں نے حضرت عبدالمطلب رضی اللہ تعالٰی عنہ کو مبارَک دی۔ حضرت عبدالمطّلب رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا کہ اللہ کی قسم! جب تک تین بار اونٹوں کا نام نہیں نکلے گا تب تک میں اس قرعہ کو تسلیم نہیں کروں گا چنانچِہ یہ عمل تین بار دہرایا گیا اور ہر بار اونٹوں پر ہی قرعہ نکلا۔([5]) تب حضرت عبدالمطّلب رضی اللہ تعالٰی عنہ نے تکبیر کہی اور صفا و مروہ کے درمیان اونٹوں کو لے جا کر قربان کر دیا۔ حضرت ِسیِّدُنا عِکْرِمہ رضی اللہ تعالٰی عنہ حضرتِ سیّدنا عبداللہ بن عبّاس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ ان دنوں یہ اصول تھا کہ ایک جان کے بدلے دس اونٹ دیئے جائیں۔ حضرت عبدالمطلب پہلے شخص ہیں جنھوں نے ایک جان کا بدلہ 100 اونٹ دیا۔ جس کے بعد قریش اور عرب میں بھی یہی دستور ہو گیا اور رسولُ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بھی اس کو برقرار رکھا۔([6]) شادی کی خواہش مند خواتین ذبح کے واقعہ کے بعد حضرت سیدنا عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی شہرت میں مزید اضافہ ہو گیا۔ مکّۂ مکرّمہ کی بہت سی حسین وجمیل لڑکیوں اور عورتوں نے آپ کے حسن و جمال سے متأثر ہو کر آپ سے نکاح کی بھر پور کوشش کی حتّٰی کہ بعض نے بڑی دولت کی بھی پیشکش کی۔ ان میں سے چند بہت مشہور ہیں۔ فاطمہ بنت مُر خَثْعَمِیّہ نامی ایک یہودیہ عورت نے آپ کی پیشانی میں چمکنے والے نور محمدی کو حاصل کرنے کے لئے مال کی پیش کش کی۔([7]) فاطمہ شامیہ یہ شاہِ شام کی بیٹی اور حسن و جمال میں یکتا تھی یہ بھی نور محمدی کو حاصل کرنے کے لئے مکّہ آئی مگر اسے بھی ناکام لوٹنا پڑا۔([8]) حضرت عبداللہ کے قتل کی سازش اہلِ کتاب بعض نشانیوں سے پہچان گئے تھے کہ نبیِّ آخرُالزّماں سرورِ کون و مکاں صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا وجودِ گرامی حضرتِ سیّدُنا عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے صُلْب (پیٹھ) میں ودیعت(امانت) ہے، ([9]) اس لئے یہود کی ایک جماعت نے یہ عہد کیا کہ جب تک حضرت عبداللہ کو قتل نہ کر دیں واپس نہیں لوٹیں گے۔ ایک دن آپ شکار کے لئے تنہا مکّہ سے باہر تشریف لائے، ان بد بختوں نے موقع غنیمت جان کر حملہ کے لئے تلواریں نیاموں سے کھینچ لیں۔ لیکن حضرتِ سیّدُنا عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی حفاظت کےلئے آسمان سے کچھ سوار نمودار ہوئے اوران بدکردار یہودیوں کو قتل کر دیا۔ اتفاق سے حضرتِ سیّدَتُنا آمِنہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے والد ماجد حضرتِ وہْب بن عبد مناف نے یہ واقعہ اپنی آنکھوں سے دیکھا۔([10]) ان کے دل میں حضرت عبداللہ کی عظمت بیٹھ گئی اور آپ نے حضرت عبد المطلب سے اپنی نورِ نظر حضرت آمِنہ کے نکاح کی خواہش ظاہر کی جو قبول کر لی گئی یوں حضرت عبداللہ کا حضرت آمنہ سے نکاح ہوگیا۔([11]) وفات حضرتِ سیّدُنا عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ قریش کے ایک قافلِے کے ساتھ بغرضِ تجارت ملک شام گئے۔ دوران سفر بیمار ہو گئے۔ واپسی پر یہ قافلہ مدینۂ منوّرہ کے پاس سے گزرا تو حضرتِ سیّدُنا عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ بیمار ہونے کی وجہ سے مدینہ ہی میں اپنے والد عبدالمطلب کے ننھیال بنو عدی بن نجار کے ہاں ٹھہر گئے اور وہیں25 سال کی عمر میں آپ کا انتقال ہوا۔([12]) 14سو سال بعد بھی جسم سلامت نوائے وقت اخبارمورَّخہ 21 جنوری 1978ء کے مطابق مدینۂ منوّرہ میں مسجدِ نبوی کی توسیع کے سلسلہ میں کی جانے والی کھدائی کے دوران سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے والدِ گرامی حضرتِ سیّدُنا عبداللہ بن عبدالمطلب رضی اللہ تعالٰی عنہما کا جسدِ مبارک جس کو دفن ہوئے چودہ سو سال سے زیادہ عرصہ گزر چکاتھا ، بِالکل صحیح و سالم حالت میں برآمد ہوا۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭…ماہنامہ فیضان مدینہ ،باب المدینہ کراچی
[1] ۔۔۔ سیرتِ والدینِ مصطفیٰ، ص42،49ملخصاً
[2] ۔۔۔ مدارج النبوۃ،ج 2،ص12 ملخصاً، سیرتِ والدینِ مصطفیٰ، ص42ملخصاً
[3] ۔۔۔ تاریخِ طبری،ج 2،ص239
[4] ۔۔۔ سیرتِ والدینِ مصطفیٰ، ص41،40 ملخصاً
[5] ۔۔۔ السیرۃ النبویہ لابن ہشام، ص64 ملخصاً
[6] ۔۔۔ طبقات ابن سعد،ج 1،ص72
[7] ۔۔۔ تاریخِ طبری،ج 2،ص244 ماخوذاً
[8] ۔۔۔ سیرتِ والدینِ مصطفیٰ، ص57،58 ملخصاً، شواہد النبوۃ، ص28 ملخصاً
[9] ۔۔۔ سیرتِ والدینِ مصطفیٰ، ص60 ملخصاً، مدارج النبوہ،ج 2،ص12 ملخصاً
[10] ۔۔۔ معارج النبوۃ،ج 1،ص181 ملخصاً
[11] ۔۔۔ معارج النبوۃ،ج 1،ص182 ملخصاً
[12] ۔۔۔ المنتظم،ج 2،ص244ماخوذاً۔
Comments