انسانی زندگی کا نظام جتنا مضبوط اور پائیدارہو گا، اتنی ہی آسانیاں، کامیابیاں اور راحتیں انسان کا مقدر ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنے پیارے حبیب، حبیبِ لبیب صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ذریعے اسلام کی صُورت میں مکمل ضابطۂ حیات Complete Code of life)) عطا فرمایا۔ نبیِّ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےاپنے اقوال و افعال کی صورت میں بہترین نظامِ حیات دیا، معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹنے والے جرائم کے سدِّ باب کےلئےمستحکم قوانین عطافرمائے، عدل و انصاف، مساوات اور اخلاقیات کا اعلیٰ نظام قائم فرما کر معاشرے کے بگڑتے ہوئے توازن کو دُرست کیا، یہی وجہ ہے کہ انفرادی اور اجتماعی زندگی کو خوشگوار اور پُرسکون بنانے کے سلسلے میں کی جانے والی رحمتِ عالَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بے مثال کرم نوازیاں اور لازوال احسانات زندگی کے تقریباً ہر شعبے میں آج بھی ہماری رہنمائی کر رہے ہیں۔ آئیے! اس کے چند پہلو ملاحظہ کرتے ہیں:
قیامِ عدل و انصاف کےسلسلے میں احسان
عَدْل و انصاف انسان کا بنیادی حق ہے۔نبیِّ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے عطا کردہ نظام ِ عدل میں امیر وغریب اور اپنے پرائے کی تفریق نہیں بلکہ یہ ہر ایک کو یکساں انصاف فراہم کرکے عزّت اور جان و مال کی حفاظت کی ذمّہ داری لیتا ہے۔ ایک موقع پر آپ نے یہ خُطبہ ارشاد فرمایا: اے لوگو! تم سے پچھلے لوگ اسی لئے ہلاک ہوئے کہ ان میں صاحبِ منصب چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیا جاتا اور اگر غریب چوری کرتا تو اس پر حد قائم کی جاتی، خدا کی قسم! اگر فاطمہ بنتِ محمد بھی چوری کرتی تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دیتا۔ (مسلم، ص 716، حدیث: 4410) دنیا میں جب کبھی، جہاں کہیں عَدْل و انصاف کےسلسلے میں نبوی تعلیمات کا نَفاذ ہوا وہاں چَیْن و سکون اور ترقی و خوش حالی کی مشکبار ہوائیں چلنے لگیں۔
حفاظتِ حقوق کےسلسلے میں احسانات
بَرتَر اوربَدتَر کی تقسیم سے معاشرے کا توازن خراب ہوتا ہے جس کا نتیجہ حقوق کی پامالی ،قتل و غارت گری اور دیگرسنگین نتائج کی صورت میں بھگتناپڑتا ہے۔نبیِّ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےاس طرح کی طبقاتی تقسیم کا خاتمہ فرمانے کے لئے نظامِ مساوات عطاکیا،جس کی بدولت مرد و عورت ہی نہیں بلکہ معاشرے کے ہر طبقے کےجانی اور مالی حقوق محفوظ ہوئے۔ آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے عطا کردہ”نظامِ مساوات“ کو عالمگیررول ماڈل(Role Model) کے طور پر جانا جاتا ہے۔
مالیاتی نظام پراحسان
زمانَۂ قدیم سے ہی سود کودولت میں اضافے کا ذریعہ سمجھا جاتاتھا، نبیِّ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےسود کھا نے والے، کھلانے والے، اس کی تحریر لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت کی اور فرمایا کہ یہ سب (گناہ میں) برابر ہیں۔ ( ابن ماجہ،ج3،ص73، حدیث: 2277) ایک موقع پر ارشاد فرمایا: جس قوم میں سود پھیلتا ہے اس قوم میں پاگل پن پھیلتا ہے۔ (الکبائر للذھبی،ص70) بلکہ آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سود کو ہلاکت کاسبب قرار دیا۔ (الکبائر للذھبی، ص69) دنیا کے جس تاجرنے آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے فرامین پر عمل کرتے ہوئے سود سے پرہیز کیا اُسے نفع ہوا اور تجارتی میدان میں ترقّی و کامیابی نے اُس کے قدم چُومے۔ اسی طرح تجارت کے میدان کو فروغ دینے اور معاشرتی سطح پر معاشی ترقّی بڑھانے کیلئے مُضارَبت، مشارکت کے اُصول ارشاد فرمائے۔ ملازِم و مالِک کی ذمّہ داریوں اور حُقوق پر مبنی فرامین سے نوازا، تجارت میں دھوکے، جھوٹ اور ملاوٹ وغیرہ سے روکا۔ معاشی میدان میں یہ کریم آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ایسا احسانِ عظیم ہے کہ ان اُصولوں کی پاسداری کرنے سے ہر معاشرے کی بے روزگاری اور غربت ختم ہوجائے۔
غلاموں پر احسان
فاتح قوم کاشکست خوردہ قوم کو غلام بنالینا پھر اس غلامی کا سلسلہ نسل درنسل چلتے رہنا بھی دنیا کا ایک عالمگیر مسئلہ (Global Issue)تھا،نبیِّ رَحْمتصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےاسے ختم کرنے کے لئے مختلف اقدامات فرمائے اور غلام آزاد کرنے پر یہ بشارت عطا فرمائی :جس نے ایک غلام آزاد کیا اللہ پاک اس غلام کے ہر عُضو کے بدلے اس کے ایک عضو کو جہنم سے آزاد فرما دے گا۔(مسند احمد،ج 7،ص149، حدیث: 19642) نیز غلاموں کی تعلیم و تربیَت کا اِہتمام فرماکر انہیں عزّت وشَرف کی بُلندیوں پر پہنچا دیا۔ عالَمی طور پر اس کا اثر یہ ظاہر ہوا کہ ”غلامی“کی روش آہستہ آہستہ دم توڑتی گئی۔
قیامِ امن کےسلسلے میں احسان
”اَمْن“ انسان کی بقا اوراس کےدنیامیں پَھلنے پُھولنے کےلئے نہایت ضَروری ہے اسی لئے نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایسےاُصول بیان فرمائے جو انسان کے جان و مال کے حقوق کاتحفظ فراہم کرتے ہیں۔فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: (کامل) مسلمان وہ ہے جس کی زَبان اور ہاتھ سے مسلمان کو تکلیف نہ پہنچے۔(بخاری،ج1،ص15،حدیث:10)
ایک مقام پر ارشاد فرمایا:کسی مسلمان کو جائز نہیں کہ وہ کسی مسلمان کو خوفزدہ کرے۔(ابو داؤد،ج4،ص391، حدیث:5004)
جہاں آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم امنِ عامہ کو خر اب کرنے والے عناصر کا قلع قمع کرنے کے لئے سَزائیں مقرّر فرمائیں وہیں سَزا دینے میں افراط و تفریط سےبچانے کے لئے آخِرت کی جوابدہی سے بھی ڈرایا۔ قیام ِ اَمْن کے سلسلے میں آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی عملی دعوت کا اثریہ ظاہر ہوا کہ دنیا کو اپنی بقاکے تحفظ کے لئے لازوال قوانین میسّر آئے۔
احساناتِ مصطفےٰ کے لاتعداد پہلو ہیں اورہرپہلومیں رحمتِ
مصطفےٰ کےبےحدحَسین نظارے ہیں،ہمیں بھی چاہئےکہ آقا کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی کرم نوازیوں اور احسانات کو یاد رکھیں اور ہرحال میں اطاعتِ مصطفےٰ کو اپنا شعار بنائیں ۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭…ذمہ دار شعبہ فیضان اولیاوعلما،المدینۃالعلمیہ باب المدینہ کراچی
Comments