گلی چھوٹی تھی جہاں سے ایک وقت میں ایک ہی گاڑی گزر سکتی تھی، ایسی
جگہ پر کار کے ٹائر کا پنکچر ہونا،اوپر سے گرمی کا موسم!50برس کے جمال صاحب کے ہوش
اُڑا دینے کے لئے کافی تھا۔ ’’مرتا کیا نہ کرتا‘‘ کے مِصداق انہوں نے کار کے نیچے
جیک لگایا اور ٹائر کھولنا شروع کیا۔اسی دوران ایک اور کار اس طرف آنکلی جسے ایک
نوجوان چلارہا تھا۔ راستہ بند ملنے پر اس نے ہارن بجانا شروع کیا، ہارن کی کان
پھاڑ آواز کو چند سیکنڈ تو جمال صاحب نے برداشت کیا پھر اپنے چہرے سے پسینہ صاف
کرتے ہوئے اُٹھے اور اس نوجوان کی ائیر کنڈیشن گاڑی کا شیشہ اِشارے سے نیچے کروایا
اور بڑی نرمی سے چوٹ کی: ’’بڑی مہربانی ہوگی کہ آپ میری گاڑی کا ٹائر بدلنے کا کام
کردیں اور اُتنی دیر میں یہاں آپ کی کار میں بیٹھ کر ہارن بجانے کا کام کرتا ہوں۔‘‘
نوجوان یہ سُن کر شرمندہ سا ہوا اور ہارن بجانا چھوڑ دیا۔
پیارے اسلامی بھائیو! اس فرضی حکایت میں ہارن سے پہنچنے والی
تکلیف کی نشاندہی کی کوشش کی گئی ہے۔ کانوں کا بہرہ پَن (Deafness)،
بلڈ پریشر، غصہ، چِڑچِڑا پَن، مختلف نفسیاتی مسائل، کم خوابی اور عدمِ برداشت کا رویّہ
عام ہونے میں مشینوں، جنریٹر، ٹریفک وغیرہ کےشور کا بھی کردار ہے اور ہارن بھی اسی
شور کا اہم حصہ ہے۔
ہارْن
کا بنیادی مقصد کار،
موٹر سائیکل، بسوں اور ٹرکوںوغیرہ میں
لگائے جانے والے ہارن کا بنیادی مقصد ضرورتاً دوسروں کو اپنی موجودگی سے آگاہ کرنا
ہے مثلاً کوئی ایک دَم مُڑنے لگے، یا اوورٹیکنگ کرتے ہوئے گاڑی لہرانا شروع کردے،
اِشارہ کھلنے کے باوجود گاڑی آگے نہ بڑھائے تو ہارن بجا کر اُسے آگاہی دی جاسکتی
ہے کہ ’’ہم بھی پڑے ہیں راہوں میں‘‘، بہرحال یہ مقصد کم آواز والے ہارن یا ایک Beep سے بھی پورا ہوسکتا ہے لیکن ایک سے بڑھ کر ایک عجیب
و غریب تیز ہارن موٹر سائیکلوں سے لے کر ہیوی ٹرکوں پر لگے ہوتے ہیں کہ جن کی آواز
سُن کر انسان کا دل دَہَل جائے۔ نازیبا انداز میں کسی کے بِالکل قریب جاکر پریشر
ہارن بجانے سے بعض اوقات اُسے اَعصابی جھٹکا لگتا ہے جس کی وجہ سے وہ گھبراہٹ میں
اپنی گاڑی کسی دوسری گاڑی یا فُٹ پاتھ وغیرہ سے ٹکرا بیٹھتا ہے،یوں حادثہ ہوجاتا
ہے۔
ہارن اور نازک کان ڈیسی بیل (D.B) شور کو ناپنے کا ایک پیمانہ
ہے اور سائنس دانوں کے مطابق زیرو ڈیسی بیل کا مطلب وہ کم سے کم آواز ہے جو انسانی
کان محسوس کرسکتے ہیں۔ سرگوشی سے پیدا ہونے والی آواز 20 ڈیسی بیل، عام گفتگو سے60
ڈیسی بیل آواز پیدا ہوسکتی ہے، جبکہ 80 ڈیسی بیل سے اوپر آواز انسانی سماعت کے لئے
تکلیف دہ ہوتی ہے۔ انسانی کان ایک پیچیدہ آلہ ہے جو ہمارے مرکزی اعصابی نظام سے جُڑا ہوتا
ہے۔ہمارے کان عام طور پر شورو غُل کی 55 تا 65
ڈیسی بیل تک برداشت کرسکتے ہیں، اگر آواز 65 تا 90 ڈیسی بیل تک پہنچ جائے تو ہمارے
جسم پر منفی اثرات (Negative Impacts) پڑنے لگتے
ہیں۔ دل کی بیماریاں ہوسکتی ہیں، نیند میں بھی بےقاعدگی ہوسکتی ہے جو تھکاوٹ، سستی،
کارگردگی میں خَلَل اور چِڑاچِڑاپَن کی وجہ بنتی ہے۔ پریشر
ہارن، سیفٹی ہارن اور پھٹے سائلنسروں کی آوازوں کی ویلاسٹی 160 ڈیسی
بیل سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔جب ہر کوئی بے دَریغ ہارن بجائے گا تو
یہ اجتماعی شور کتنا نقصان کرے گا!اس کا اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں۔رَش والے
مقامات اور بڑے شہروں میں جہاں رات گئے تک ٹریفک چلتی ہے،ہارنوں کا شور زیادہ
پریشان کُن ہوتا ہے۔
ہارن بجاکر تکلیف نہ دیجئے کسی مسلمان کو
بلاوجہِ شرعی تکلیف پہنچانا جائز نہیں ہے۔ ہارن بجانے کے بُخارمیں مبتلا افراد غور
فرمائیں کہ وہ کس طرح دوسروں کے لئے تکلیف دَہ ثابت ہوتے ہیں، چنانچہ ٭اسکول کے
سامنے ہارن بجانا مُہَذَّب مُعاشرے میں منع ہوتا ہے لیکن بے حِس قسم کے لوگ یہاں
بھی ہارن بجانے سے باز نہیں آتے، اسکول یا مدرسے کے بچّے ہارن کی آواز سُن کر سَہْم
سے جاتے ہیں ٭اسپتال مریضوں کے علاج کی جگہ ہے،لیکن نادان لوگ اسپتال کے سامنے بھی
ہارن بجانے سے پرہیز نہیں کرتے اور شور میں اضافہ کرکے مریضوں کی تکلیف میں اضافے
کا سبب بنتے ہیں ٭ٹریفک جام ہوتو بے صبرے ڈرائیور ہارن پر ہاتھ رکھے رہتے ہیں اور
بار بار بجا کر اِرْدگِرْد کے لوگوں کو تشویش میں مبتلا کرتے ہیں، حالانکہ ہارن
جتنا بھی بجایا جائے کوئی اثر نہیں پڑتا،ٹریفک اُسی وقت کُھلتا ہے جب گاڑیوں کے
پہیے گُھومنا شروع کرتے ہیں ٭رات گئے رہائشی علاقے میں بِلاضرورت ہارن بجانے والا
خود اپنا تعارف کروا رہا ہوتا ہے کہ میں کتنا ناسمجھ ہوں! ٭ریڈ سِگنل پر بھی بعض
لوگ ہارن بجانے سے باز نہیں رہ پاتے حالانکہ سگنل اپنے وقت پر کُھلتا ہے جس پر
ٹریفک بھی کُھل جاتا ہے ٭کسی کار یا بائک والے یا پیدل چلنے والے کے سر پر پہنچ کر
اچانک پریشر ہارن بجانے سے وہ ڈر کے مارے لَرَز کر رہ جاتا ہے پھر جب وجہ پتا چلتی
ہے تو وہ ہارن بجانے والے پر اپنا غصّہ اتارنے کی کوشش کرتا ہے،یوں جھگڑا شروع
ہوجاتا ہے ٭بچّوں کو اسکول وغیرہ لے جانے والی ویگنیں بھی کسی سے پیچھے نہیں، انہوں
نے خاص طور پر زیادہ آواز والے ہارن لگائے ہوتے ہیں تاکہ بجاتے ہی پوری گلی کو
پتاچل جائے کہ مابدولت بچّوں کو لینے آچکے ہیں اور گھر والے بچّوں کو جلدی سے باہر
بھیج دیں۔
لڑائی ہوتے ہوتے رہ گئی ایک نوجوان کے بوڑھے
والد بیمار تھے جس کی وجہ سے رات کو برابر سونہیں سکے، فجر کے بعد والد صاحب کی
آنکھ لگی۔تھوڑا ہی وقت گزرا تھا کہ گلی میں کسی نے کان پھاڑ آواز میں ہارن بجانا
شروع کیا جس سے والد صاحب کی آنکھ کُھل گئی،اس پَر نوجوان کا صبر جواب دے گیا، دروازہ کھو ل کر دیکھا تو اسکول وین کی
ڈرائیونگ سِیٹ پر بیٹھا شخص ساتھ والے گھر سے بچّے کو بُلانے کے لئے بار بار ہارن
بجارہاتھا۔نوجوان نے اسے سختی سے کہا: تمہیں اتنا بھی خیال نہیں کہ یہاں کوئی بزرگ
یا بچہ بیمار ہوسکتا ہے، کوئی اسٹوڈنٹ مُطالَعے
میں مصروف ہو، کوئی خاتون گھر میں تلاوتِ قراٰن کررہی ہو! مگر لگتا ہے کہ
تمہیں اس کی کوئی پرواہ نہیں اسی لئے تم نے ہارن بجابجا کر لوگوں کو پریشان کررکھا
ہے، یہ سُن کر وہ ڈرائیور بھی طَیش میں آگیا،تَلْخ کلامی سے بات ہاتھا پائی تک
پہنچ جاتی کہ سامنے سے مسجد کے امام صاحب بھی
آگئے اور درمیان میں پڑ کر معاملہ رَفع دَفع کروا دیا۔
بار بار ہارن کیوں بجانا پڑتا
ہے؟ اس
میں کچھ قُصور ہمارا بھی ہے کہ ہم کسی آہٹ یا ہارن کی Beep کو خاطر میں نہیں لاتے اور اپنی دُھن میں
چلے جارہے ہوتے ہیں، جس کے نتیجے میں گاڑی کے ڈرائیورکو تیزیا بار بار ہارن بجانا
پڑتا ہے،بہرحال دونوں کو ایسا نہیں کرنا چاہئے۔اللہ پاک ہمیں حُسنِ اَخلاق
کا پیکر بنائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭…مدیر(Chief Editor)ماہنامہ فیضان مدینہ باب المدینہ کراچی
Comments