کسی بھی سوچ یا خواہش کو عملی جامہ پہنانے سے قبل ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ اس کے انجام پر نظر کرلی جائے تو انجام کو دیکھتے ہوئے کوئی بھی عاقل شخص اس سوچ یا خواہش پر عمل پیرا ہونے یا اسے ترک کرنے کا فیصلہ بآسانی کر سکتا ہے مثلاً قتل کا انجام پھانسی، ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کا انجام ذلت و جرمانہ پیشِ نظر ہو تو آدمی ان جرائم سے بچ جاتا ہے۔ دنیاوی اُمور کے ساتھ ساتھ ایک مسلمان کو چاہئے کہ وہ اخروی معاملات میں بھی اسی اصول کو زندگی کا حصّہ بنائے تاکہ نیکیاں کرنے اور گناہوں سے بچنے کی طرف طبیعت بہ سہولت مائل ہو جائے۔
پیارے اسلامی بھائیو! علمائے کرام رحمہم اللہ السَّلام نے گناہوں کے بہت سے بھیانک انجام بیان کئے ہیں، انہی میں سے چند ہم بیان کریں گے:
مؤمنین کی نفرت و مذمت کا حقدار: اُمُّ المؤمنین حضرت سیّدَتُنا عائشہ صدّیقہ رضی اللہ عنہا نے حضرت سیّدُنا امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ کو مکتوب بھیجا: امابعد!جب بندہ اللہ پاک کی نافرمانی کا کوئی عمل کرتا ہے تو اس شخص کی تعریف کرنے والے لوگ اس کی مذمت کرنے لگتے ہیں۔([1])
حضرت سیّدُنا ابودرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: بندے کو اس بات سے ڈرنا چاہئے کہ مؤمنین کے دل اس سے نفرت کرنے لگیں اور اسے اس بات کا شعور بھی نہ ہو۔ حضرت سیّدُنا فضیل بن عیاض رضی اللہ عنہ اس کی وجہ بیان فرماتے ہیں کہ: جو بندہ تنہائی میں اللہ پاک کی نافرمانی کرتاہے اللہ پاک مؤمنین کے دِلوں میں اس کے لئے اپنی ناراضی اس طرح ڈال دیتا ہے کہ اسے اس کا شعور بھی نہیں ہوتا۔([2])
پریشانی (Depression) کا سبب: بعض اوقات گناہ کسی بڑی پریشانی کا سبب بھی بن جاتے ہیں، مروی ہے کہ امام محمد بن سیرین رضی اللہ عنہ جب مقروض ہوئے اور انہیں قرض کے سبب شدید غم لاحق ہوا توآپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں اس غم کا سبب چالیس سال پہلے سر زد ہونے والے ایک گناہ کو سمجھتا ہوں۔ ([3])
بھلائیوں سے محرومی: گناہوں کی ایک نحوست دنیا اور آخرت کی بھلائیوں سے محرومی بھی ہے جیسا کہ امام احمد بن علی المعروف ابنِ حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ روایت فرماتے ہیں کہ گناہوں کی نحوست دنیا اور آخرت کی بھلائیاں زائل کر دیتی ہے۔ ([4])
بُرا خاتمہ: گناہوں کا ایک بھیانک اور ہولناک انجام کفر بھی ہے اوریہ ایسا ہلاکت خیز انجام ہے کہ جس کے نتیجے میں بندہ ہمیشہ کے لئے اللہ پاک کی ناراضی اور عذابِِ جہنّم کا مستحق ٹھہرتا ہے، اس حوالے سے بُزُرگانِ دین کے ارشادات ملاحظہ کیجئے:
حضرت سیّدُنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:”جب بنی اسرائیل کو کسی چیز کا حکم دیا جاتا تو وہ اسے چھوڑدیتے تھے اور جب کسی کام سے روکا جاتا تو انجام کی پرواہ کئے بغیر اسے کر گزرتے تھے یہاں تک کہ وہ اپنے دین سے اس طرح نکل گئے جیسے آدمی اپنی قمیص سے نکل جاتاہے۔“([5])
امام ابو حفص رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: ”جو اپنے نفْس کے عُیوب کو نہ جانتا ہو، وہ بہت جلد ہلاکت میں پڑجاتا ہے۔ کیونکہ گناہ کفر کے قاصد ہیں۔“([6])یعنی جیسے (بڑھاپے کے) سفید بالوں کو موت کا قاصد کہا جاتا ہے کہ ان کے بعد اگلی منزل صرف موت ہی ہوتی ہے یوں ہی گناہوں کے عادی کے لئے اگلی منزل کفر ہوسکتی ہے اگر وہ خوفِ خدا سے کام لیتے ہوئے گناہوں سے توبہ نہ کرے۔
پیارے اسلامی بھائیو! ایک حدیثِ مبارکہ کے مطابق گناہ کرنے سے بندے کے دل پر سیاہ دھبہ لگا دیا جاتا ہےگناہوں پر اصرار کے سبب یہ سیاہی بھی بڑھتی جاتی ہے اور کفر تک پہنچا دیتی ہے، امام احمد بن حجر مکی شافعی رحمۃ اللہ علیہسلف صالحین رحمۃ اللہ علیھم کا قول نقل فرماتے ہیں:” گناہ کفر کے قاصد ہیں کہ یہ دل میں سیاہی پیدا کردیتے ہیں (رفتہ رفتہ) یہ سیاہی دل کو ایسے ڈھانپ لیتی ہے کہ پھر وہ کبھی کسی بھلائی کو قبول نہیں کرتا، تب دل ایسا سخت ہوجاتا ہےکہ اس سے ہر شفقت و مہربانی اور خوف نکل جاتا ہے، اس کے بعد وہ شخص جو چاہتا ہے کر گزرتا ہے اور جسے پسند کرتا ہے اس پر عمل کرتا ہے، آخرکار ایسا شخص اللہ پاک کے مقابل شیطان کو اپناولی (یعنی دوست) بنا لیتا ہے اور شیطان اسے گمراہ کرتا، ورغلاتا، جھوٹی اُمیدیں دلاتا اور جس قدر ممکن ہو کفر سے کم کسی بات پر اس سے راضی نہیں ہوتا۔ “([7])
علامہ سیّد احمد زینی دحلان شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: گناہ ایک ایسی زنجیر ہے جو بندے کو عبادت ونیکی کی طرف چلنے سے روک دیتی ہے،گناہوں کابوجھ اُمورِ خیر میں جلدی و آسانی اور عبادات میں تازگی کے لئے رُکاوٹ بن جاتا ہے اور گناہوں پر ڈٹے رہنا دل کو سیاہ کر دیتا ہے پھر تم دل کو اندھیرے اور سختی میں ڈوبا پاؤ گےجس میں خلوص، پاکیزگی، لذت اور حلاوت نام کو نہ ہوگی۔ اگر خدا کا فَضْل شامِلِ حال نہ ہوا تو رفتہ رفتہ یہ گناہ اُس شخص کو کفر و بدبختی تک پہنچا دیں گے۔([8])
پیارے اسلامی بھائیو! ابلیس لعین اور بلعم بن باعورا کے واقعات میں بھی ہمارے لئے عبرت کا سامان ہے کہ انہوں نے بھی ابتدا خداوندِ جلیل کی نافرمانی سے کی تھی لیکن آخر کار کافر بن کر ہمیشہ کے لئے غضبِ پروردگار کے حقدار بن گئے۔
عقل مند وہی ہے جو جلد از جلد گناہوں سے تائب ہو کر مغفرتِ ربانی کا مستحق بن جائے۔ اللہ پاک ہمیں چھوٹے بڑے سبھی گناہوں سے محفوظ رکھے۔([9])
محبت میں اپنی گُما یاالٰہی
نہ پاؤں میں اپنا پتا یاالٰہی
مسلماں ہے عطارؔ تیری عطا سے
ہو ایمان پر خاتِمہ یاالٰہی
Comments