پتنگ اڑانے کے
ساتھ مخصوص تہوار بسنت کا آغاز سزائے موت پانے والے غیرمسلم کی یادگار سے ہوا اور
ہرگزرتا سال اس کی گندگیوں ،ناپاکیوں میں اضافہ ہی کرتا چلا گیا ، پھر نوبت یہاں
تک پہنچی کہ موٹرسائیکل پر بیٹھے ننھے بچوں کے گلوں پر دھاتی ڈور پھرنے لگی ، بجلی
کے کرنٹ سے نوجوان کوئلہ بنے ، والدین کے بڑھاپے کا سہارا ِچِھنا ، کسی کا سہاگ
اُجڑا ،کسی کے سر سے کفالت کرنے والے بڑے بھائی کا سایہ اُٹھا ،گلی گلی میوزک ہال
بنی اور بڑے بڑے گھروں ہوٹلوں کی چھتیں ناچنے والیوں کے ٹھکانے،بدکاریوں نےریکارڈ
توڑ دئیے تو زبردستی بھی عصمتیں برباد کی گئیں، شرابیں پی کر ہوائی فائرنگ کرنے
والوں کی گولیاں صحن میں سونے والوں کے جسم میں انگارہ بن کراُتریں اور انہیں قیدِ
حیات سے آزاد کرگئیں، چھتوں سے گرنے والے پہلے اسپتال پھر قبرستان پہنچے تو کچھ
لوگوں کو ہوش آیا اور اس خونی تہوار ’’بسنت‘‘پر قانونی پابندی لگ گئی ، پتنگ بنانا
، بیچنا ،اُڑانا جرم قرار پایا تو کچھ سکون ہوا۔ اس پابندی کو آٹھ نوسال ہونے کو
آئے اپنی ذہنی آوارگی کو تسکین دینے والے ہر مرتبہ بسنت پر پابندی ختم ہونے کا
شوشا چھوڑتے ہیں، کبھی ثقافتی تہوار ، کبھی خوشیاں بکھیرنے اور کبھی محرومیوں کا
مداوا کرنے کے نام پر بے سروپا دلائل کا شور مچا دیتے ہیں،’’خیرکے مقابلے میں شر
تیزی سے پھیلتا ہے‘‘ کے مصداق من چلے اور ناسمجھ کم عمر نوجوان خوشیوں کے نام پر
پتنگ بازی شروع کردیتے ہیں، اب ڈور سے اپنا ہاتھ کٹے یا کسی کا ننھا گلا،پولیس
پکڑے یا چھت سے گر کر ٹانگ ٹوٹے ، بجلی کے ٹرانسفارمر دھماکے سے اُڑیں یا بے ہنگم
گانوں کے شور سے کسی کی نیند خراب ہو، پڑھائی برباد ہو یا صحت ! ان پر ایسا شیطانی
جنون سوار ہوتا ہے کہ بسنت منانے کو اپنی زندگی موت کا مسئلہ بنالیتے ہیں ۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَزَّ
وَجَلَّ ہم مسلمان ہیں، ہماری زندگی شریعت کے احکام کے
مطابق گزرے اسی میں ہماری دنیا اور آخرت دونوں کی بھلائی ہے۔ ہماری خوشیاں بھی
شریعت کے دائرے میں ہوں اور غم کے لمحات بھی نورِ شریعت میں گزریں۔ بسنت منانے سے
جُڑے ہر فرد سے خیرخواہی کے جذبے کے تحت گزارش ہے کہ بسنت کے اجزائے ترکیبی میں سے کوئی شے بتا دیں جس کی اجازت ہمارا اسلام دیتا ہو، پتنگ بازی ناجائز، ڈور
لُوٹنا جائز نہیں، ساز وآواز پر مشتمل موسیقی سننا ناجائز، پتلی دیواروں پر کھڑے
ہونا اپنی جان کو خطرے میں ڈالنے کی اسلام میں اجازت نہیں، بلند چھتوں پر چڑھ کر
دوسروں کے گھر میں جھانکنے کی اجازت نہیں، عورتوں لڑکیوں کا بے پردہ اونچی چھتوں پر
چڑھنا، بوکاٹا کے نعرے لگانا، لڈیاں ڈالنا کہاں جائز لکھا ہے، دھاتی اور تیز دھار
ڈور جب کسی کے گلے پر پھرتی ہے تو اس کے دوسرے سرے پر موجود شخص دنیا میں چاہے نہ
پکڑا جاسکے،کیا آخرت میں بچ سکےگا، شراب نوشی، بدکاری کے حرام ہونے سے کون واقف
نہیں !پھر یہ بتائیے کہ کیا یہ سب کچھ ایک دن کے لئے ہوتا ہے، کئی ہفتے پہلے سے اس
بسنت کی تیاری شروع ہوجاتی ہے، اور کئی دن بعد تک بچا ہوا سامانِ گناہ کام آتا
رہتا ہے، ایک دن کم دکھائی دیا تو آوارہ
ذہن کے لوگوں نے بسنت نائٹ بھی منانا شروع کردی، قانون اگر اس کی اجازت دے بھی دے
تو کیا شرعاً یہ سب کچھ جائز ہوجائے گا، ذرا سوچئے ! کہ پہلے نمازیں چھوڑنے،روزے نہ
رکھنے اور دیگر گناہوں کا انبار سرپر ہوتے ہوئے گناہوں کا پلندہ بسنت کے نام پر
اپنے کندھوں پر رکھ لینا آپ کے خسارے میں اضافہ کرے گایا کمی!یاد رکھئے ! دنیا اسی
کی کامیاب ہے جو اپنے اللہورسول عَزَّوَجَلَّ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت کرتا ہے اور آخرت میں بھی وہی کامیاب
ہے جس نے اللہورسول عَزَّوَجَلَّ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو راضی کرلیا۔ ایک راستہ جنت کی طرف جاتا ہے
اور دوسرا جہنم کو، فیصلہ آپ نے کرنا ہے کہ کس راہ پر چلنا ہے۔ اللہپاک ہمیں جنت میں لے جانے والے راستے پر
چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین
Comments