دو عالم کے مالک و مختار صلَّیاللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: شیطان اپنا تخت پانی پر بچھاتا ہے ،پھر اپنے لشکر بھیجتا ہے، ان لشکروں میں ابلیس کے زیادہ قریب اُس کا دَرَجہ ہوتا ہے جو سب سے زیادہ فتنے باز ہوتا ہے۔ اس کے لشکرمیں سے ایک آکر کہتا ہے: میں نے ایسا ایسا کیا ہے تو شیطان کہتا ہے : ” تُونے کچھ بھی نہیں کیا۔“ پھر ایک اور لشکر آتا ہے اور کہتا ہے: ”میں نے ایک آدمی کو اس وَقت تک نہیں چھوڑا جب تک اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان جُدائی نہیں ڈال دی۔“ یہ سن کر ابلیس اسے اپنے قریب کر لیتا ہے اور کہتا ہے: ” تُوکتنا اچھا ہے!“ اور اپنے ساتھ چمٹا لیتا ہے۔ (مسلم،ص1158،حدیث:7106)
طلاق
اکثر بہت سارے فسادات کی جڑ بن جاتی ہے۔ اس لئے ابلیس اس پر خوش ہوتا ہے، جو شخص
ناحق زوجین میں جدائی کی کوشش کرے وہ ابلیس کی طرح
مجرم ہے۔(مراٰۃ المناجیح،ج 1،ص85ملتقطاً)
حلال مگر ناپسندیدہ رسولِ کریم، رءوفٌ رَّحیم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے: اَبْغَضُ الْحَلَالِ اِلَى اللَّهِ تَعَالٰى اَلطَّلَاقُ یعنی حلال چیزوں میں خدا کے نزدیک زیادہ نا پسندیدہ طلاق ہے۔(ابو داؤد،ج2،ص370، حدیث: 2178)
علّامہ طِیْبی رحمۃ اللہ علیہ (سالِ وفات: 743ھ) لکھتے ہیں: طَلاق مَشْروع ہے یعنی دیں گے تو ہو جائے گی مگراللہ کے نزدیک ناپسندیدہ ہے جیسا کہ بغیر عُذرِ شرعی کے فرض نماز گھر میں پڑھنا، غَصْب شُدَہ زمین میں نماز پڑھنا (کہ ان دونوں صورتوں میں نماز ہوجائے گی مگر اس طرح کرنے والا گناہ گار ہوگا)، اسی طرح جمعہ کے دن اذانِ جمعہ کے بعدخرید و فروخت کرنا (کہ یہ خرید و فروخت ہوجائے گی مگر کرنے والے گناہ گار ہوں گے)۔(شرح الطیبی،ج 6،ص364، تحت الحدیث: 3280)
فتاویٰ رضویہ میں ہے: بِلاوجہِ شرعی طلاق دینا اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند و مبغوض و مکروہ ہے۔ (فتاویٰ رضویہ،ج 12،ص323)
طلاقوں کی بڑھتی ہوئی شرح ہمارے معاشرے میں روز بروز
طلاقوں کی تعداد بڑھتی چلی جارہی ہے، ایک رپورٹ کے مطابق سال 2012 سے 2017 کے
درمیان پنجاب کے 36اضلاع میں خلع یا طلاق کے 4 لاکھ 78ہزار 130کیسز رجسٹرڈ ہوئے ہیں، جن میں 20 فیصد صرف فیصل آباد اور
لاہور کے اضلاع سے رپورٹ ہوئے ہیں۔ پنجاب کے 36 اضلاع سے سال 2012 میں 63 ہزار 7سو
34، سال 2013 میں 69ہزار1سو26، سال 2014 میں 74 ہزار 6سو19، سال 2015 میں 77 ہزار 3سو
27، سال 2016 میں 93 ہزار 5سو 7 اور سال 2017 میں 99 ہزار 5 سو 99 جوڑوں نے
علیحدگی اختیار کی۔ (Media For Transparency) اسی سے
ملک کے دیگر حصوں کا اندازہ لگا لیجئے۔
طلاقیں کیوں
ہوتی ہیں؟ طلاق کی بہت سی وجوہات ہوتی ہیں، جن میں سے ایک وجہ
کسی فرد کا میاں بیوی کو ایک دوسرے کے خلاف بھڑکانا بھی ہے جس کی وجہ سے ان کے
درمیان جھگڑے ہونے لگتے ہیں پھر بعض اوقات نوبت طلاق تک جاپہنچتی ہے۔
وہ ہم میں سے نہیں نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ معظّم ہے: ”جو کسی شخص کی بیوی کو اس کے خلاف بھڑکائے وہ ہم میں سے نہیں۔“(مسند احمد،ج 9،ص16، حدیث:23041)
حکیمُ الامت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ اِس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں:خاوند بیوی میں فساد ڈالنے کی بہت صورتیں ہیں، عورت سے خاوند کی برائیاں بیان کرکے دوسرے مَردوں کی خوبیاں ظاہر کرے کیونکہ عورت کا دل کچی شیشی کی طرح کمزور ہوتا ہے یا ان میں اختلاف ڈالنے کے لیے جادو تعویذ گنڈے کرنے سب حرام ہے۔( مراٰ ۃ المناجیح،ج 5،ص101)
میاں بیوی محتاط
رہیں میاں بیوی کو چاہئے کہ کسی کی باتوں میں نہ آئیں، گھر
کا کوئی فرد ہویا باہر کا! جب بھی بیوی کے سامنے شوہر کی برائیاں یا شوہر کے سامنے
بیوی کی برائیاں کرنے لگیں، انہیں چاہئے کہ
اسے حکمتِ عملی سے روک دیں کیونکہ جس
طرح غیبت کرنا گناہ ہے اسی طرح سننا بھی گناہ ہے۔ اسی طرح لگائی بجھائی کرنے والوں
اور چغل خوروں سے بھی بچیں کہ یہ محبتوں کے چور ہوتے ہیں، ایسوں کو ہرگز اپنا
ہمدرد نہ جانیں اور جس کے بارے میں آپ کو منفی (Negative) بات پہنچائی گئی اس پر بلاثبوتِ شرعی یقین نہ کریں
اور اس کے بارے میں اپنے دل میں میل نہ لائیں۔ حضرتِ
سیِّدُنا امام محمد بن شِہاب زُہری رحمۃ اللہ علیہ ایک مرتبہ بادشاہ سلیمان بن عبدالملک کے پاس
تشریف فرما تھے کہ ایک شخص آیا، بادشاہ نے قدرے ناگواری کے ساتھ اُس سے کہا: ”مجھے
پتا چلا ہے تم نے میرے خلاف فُلاں فُلاں بات کی ہے !“ اُس نے جواب دیا: میں نے تو
ایسا کچھ نہیں کہا۔ بادشاہ نے اِصرار کرتے ہوئے کہا:جس نے مجھے بتایا ہے، وہ(کیسے جھوٹ
بول سکتا ہے بَہُت)سچّا آدمی ہے۔تو حضرتِ
سیِّدُنا امام زُہری رحمۃ
اللہ علیہ نے بادشاہ کو مخاطب کر کے
فرمایا:آپ کو جس نے اِس طرح کی خبر دی وہ تو چغلی کھانے والا ہوا اورچغل خور کبھی
سچّا ہو نہیں سکتا! یہ سُن کر بادشاہ سنبھل گیا اور کہنے لگا: حُضُور! آپ نے بالکل
بجا فرمایا۔ پھر اُس شخص سے کہا: اِذْھَبْ بِسَلَامٍ یعنی تم
سلامتی کے ساتھ لَوٹ جاؤ۔ (اِحیاءُ العلوم،ج3،ص193)
آپس میں محبت سے رہیں شیخِ طریقت امیرِ اہلِ سنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ لکھتے ہیں: میاں بیوی کو چاہئے کہ آپس میں رواداری و محبت سے رہیں،ایک دوسرے کے حُقُوق پر نظر رکھیں اوران کو ادا بھی کرتے رہیں۔ یہ نہ ہو کہ عورت کو مرد محض”لونڈی“ بناکر رکھے کیونکہ جس طرح اللہپاک نے مردوں کو حاکمیّت دی ہے اسی طرح یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ ﴿ وَ عَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِۚ ﴾ترجمۂ کنزالایمان: اور ان (یعنی عورتوں) سے اچھا برتاؤ کرو۔ (پ4النسآء: 19) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) حُضُورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تم میں اچھے لوگ وہ ہیں جو عورَتوں سے اچھی طرح پیش آئیں۔ ( اِبن ماجہ،ج 2،ص478، حدیث:1978) مرد اپنی عورت کو نیکی کی دعوت دیتا، اِس کو ضروری مسائل سکھاتا رہے، اس کے کھا نے پینے کالحاظ رکھے اور اگر کبھی کوئی خلافِ مزاج بات ہوجائے تو درگزر سے کام لے یہ نہ ہوکہ مارپٹائی پر اُتر آئے کہ اس طرح ضِد پیدا ہو جاتی ہے اور سُلجھی ہوئی بات اُلجھ جاتی ہے۔ بیوی کو چاہئے کہ وہ بھی اپنے شوہرکی فرمانبرداری کر کے اسے راضی رکھے۔ شفیعِ اُمّت، تاجدارِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ جنَّت نشان ہے:جو عورت اِس حال میں مرے کہ اس کا شوہر اس سے راضی ہو وہ جنَّت میں داخِل ہو گی۔ (ترمذی،ج 2،ص386، حدیث: 1164) بیوی شوہر کو اپنا ”غلام“ نہ بنالے کہ جو میں چاہوں وُہی ہو،چاہے کچھ ہو جائے مگرمیری بات میں فرق نہ آئے بلکہ اس کے لئے بھی یہی حکم ہے کہ اپنے شوہر کے حُقُوق کا خیال رکھے، اس کی جائز خواہشات کو پورا کرتی رہے اور اس کی نافرمانی سے بچتی رہے۔(پردے کے بارے میں سوال جواب، ص 118تا122ملتقطاً)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭۔۔۔مدرس
مرکزی جامعۃ المدینہ،عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ،باب المدینہ کراچی
Comments