جامعۃُ
المدینہ میں پانچویں دَرَجے (خامسہ،Class 5)کا
چوتھا پیریڈ تھا، استاذ صاحب (Teacher)نے
حدیث شریف کا سبق پڑھانے کے بعد اپنے بیگ سے ایک پنسل نکالی اور طلبہ سے فرمانے
لگے:آج میں آپ کو اس پنسل کے بارے میں پانچ باتیں بتاؤں گا جس سے ہم بھی بہت کچھ سیکھ
سکتے ہیں۔ طلبہ بڑی دلچسپی سے پنسل کی طرف دیکھنے لگے۔ استاذ صاحب نے بولنا شروع کیا:
پہلی
بات یہ پنسل لکھنے کا کام کرتی ہے لیکن اسی صورت میں کہ جب یہ خود کو کسی کے ہاتھ
میں دے دے۔
دوسری
بات بہترین لکھائی کے لئے یہ پنسل بار
بار تراشے جانے کے عمل سے گزرتی ہے۔
تیسری
بات اس کی غلطی کو ربڑ وغیرہ کے ذریعے
مٹا کر دُرست کیا جاسکتا ہے۔
چوتھی
بات اس پنسل کا ظاہری اور دکھائی دینے
والا حصّہ مضبوط ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے باطِن میں (یعنی
اندر) موجود کاربَن بھی اچّھی قسم کا ہونا
چاہئے، اگر کاربَن اچّھا نہیں ہوگا تو بار بار سکّہ ٹوٹتا رہے گا اور لکھائی بھی اچّھی
نہیں ہوگی۔
پانچویں
بات اس پنسل کو جس کاغذ یاتختی یا دیوار
پر استعمال کیا جائے یہ اپنا کام کرتی ہے اور کچھ نہ کچھ نشان ڈال دیتی ہے۔
حامد،
استاذ صاحب کے قریب ہی بیٹھا تھا اس نے ہاتھ کھڑا کیا، پھر بولنے کی اجازت ملنے پر
عرض کی: استاذ صاحب! آپ نے فرمایا تھا کہ ہم اس پنسل سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں!
استاذ صاحب: جی بالکل! اب آپ خود کو پنسل کی جگہ
رکھ کر ایک ایک چیز کے بارے میں سوچئے۔
پہلا درس جس طرح پنسل اپنے آپ کو لکھنے والے کے
حوالے کردیتی ہے اسی طرح ہمیں خود کو بہترین استاذ کے حوالے کردینا چاہئے تاکہ وہ
ہماری اچّھی تربیت کرے جس کے نتیجے میں ہم اپنے کام اچّھے انداز سے کرسکیں۔ شاید
آپ کے ذہن میں آئے کہ استاذ کی ضَرورت کیوں! تو گزارش ہے کہ ہم پیدائش سے لے کر اب
تک سیکھنے کے عمل سے گزر رہے ہیں، پہلے ہمیں چلنا، بولنا، کھانا، لکھنا، پڑھنا، سائیکل،
موٹر سائیکل چلانا، قراٰنِ پاک پڑھنا، نماز ادا کرنا، روزہ رکھنا، عربی عبارت بغیر
اعراب کے پڑھنا اور اس کا ترجمہ کرنا، کچھ بھی تو نہیں آتا تھا! لیکن ہم نے یہ کام
دوسروں کی مدد سے سیکھ لئے، ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے لہٰذا ہماری بقیہ زندگی بھی
سیکھنے میں گزرے گی۔
ایک
اور طالبِ علم کاشف نے عرض کی: حُضور! ہمیں استاذ کے بہترین ہونے کا کیسے پتا چلے
گا؟
استاذ صاحب: مختصراً! اتنا سمجھ لیجئے کہ وہ
استاذ بہترین ہے جو عاشقانِ رسول میں سے ہو، علمِ دین سے آراستہ ہو، نیکیوں کا عادی
اور گناہوں سے بچنے والا ہو، نرمی اور شفقت سے ہماری اصلاح کرنے والا ہو۔ یہ بھی یاد
رکھئے کہ زندگی کے مختلف مَراحِل میں مختلف اساتذہ ہمیں مختلف چیزیں سکھاتے ہیں،
کسی سے ہم تھوڑا سیکھتے ہیں اور کسی سے زیادہ! اس لئے استاذ ایک سے زائد بھی
ہوسکتے ہیں۔
دوسرا
درس پنسل اگرچہ بے جان ہے لیکن سوچئے کہ اگر یہ
جاندار ہوتی تو بار بار شارپنر سے تراشنے پر اسے کتنی تکلیف ہوتی لیکن اگر اسے نہ
تراشا جائے تو یہ اچھی کارکردگی نہیں دکھاسکتی، اسی طرح ہمیں بھی اپنے کام کاج،
پڑھائی وغیرہ کے دوران رکاوٹوں، پریشانیوں اور تکلیفوں کا سامنا ہوتا ہے، اگر ہم
برداشْت اور صبر کا مظاہرہ کریں گے تو ہمارے کردار اور صلاحیتوں میں نکھار آئے گا
اور ہماری کارکردگی مزید بہتر ہوگی ۔ مشہور شعر ہے:
تُندیٔ
بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عُقاب
یہ
تو چلتی ہے تجھے اُونچا اُڑانے کےلئے
تیسرا
درس جس طرح پنسل اپنی غلطی کو دُرست کئے
جانے پر ضِد یا اَڑی نہیں کرتی، کوئی احتجاج نہیں کرتی، اسی طرح ہمیں بھی اپنی غلطی
کو تسلیم کرلینا چاہئے اس پر اَڑنا نہیں چاہئے۔ انسان اپنی غلطیوں سے بھی سیکھتا
ہے، سوچئے! کہ اگر ہمارے کام میں غلطی ہوجائے پھر وہ غلطی مٹانے اور دُرست کرنے پر
کام عمدہ ہوجاتا ہو تو اس میں ہمارا ہی فائدہ ہے کیونکہ بہت سے کام کرنے کے بعد
ہمارا ایک معیار بنے گا کہ یہ شخص جو کام کرتا ہے وہ عمدہ ہوتا ہے۔
چوتھا
درس جس طرح اچّھی لکھائی کے لئے پنسل کا
باطِن (یعنی کاربَن)
عمدہ ہونا ضَروری ہے اسی طرح ہمارے کام بھلے ہونے کے لئے ظاہر کے ساتھ ساتھ باطِن
بھی سُتھرا اور عمدہ ہونا چاہئے، حسد، تکبر، بغض وکینہ، ریاکاری وغیرہ وہ غلاظَتیں
ہیں جو ہمارے باطِن کو آلُودہ کردیتی ہیں، اللہ پاک ہمیں ان سے محفوظ رکھے،
اٰمین۔
پانچواں
درس جس طرح پنسل کو کسی بھی کاغذ پر رگڑو،
چاہے وہ ملائم ہو یا کُھردرا! پنسل اپنی کارکردگی دِکھاتی ہے اسی طرح ہمیں بھی ہر
طرح کے حالات میں اچھی کارکردگی دِکھانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ فلاں فلاں سہولت ملے
گی تو ہی میں کام کروں گا، مجھ سے گرمی میں کام نہیں ہوتا، میں اکیلا بیٹھ کر کام
کرنے کا عادی ہوں،اس طرح کے نَخْرے نہیں کرنے چاہئیں۔ یہ دُرست ہے کہ کچھ خاص
لوگوں کو خاص سہولتیں دی جاتی ہیں لیکن ایسوں کی تعداد تھوڑی ہے، ہمیں وہ سہولتیں
تو دِکھائی دیتی ہیں لیکن اس شخص نے اس مقام پر پہنچنے کے لئے جو محنت وکوشش کی
ہوتی ہے وہ ہمیں دکھائی نہیں دیتی۔
میرے پیارے طلبۂ کرام! عملی زندگی(Practical Life) کے آغاز پر غیر معمولی
سہولتوں کا تقاضا کرنااور باقی زندگی ان کا محتاج رہنا آپ کی زندگی کو مشکل بنا
سکتا ہے۔ اتنا کہنے کے بعد استاذ صاحب کمرے سے تشریف لے گئےکیونکہ پیریڈ کا وقت
بھی ختم ہوچکا تھا۔ استاذِ محترم کی زبان سے
پنسل کے پانچ انوکھے درس سننے کے بعد طلبہ کی باڈی لینگویج بتا رہی تھی کہ وہ
استاذ صاحب کی باتوں سے انسپائر ہوئے ہیں اور کچھ بہترکرنے کا عَزم رکھتے ہیں۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭…مدرس مرکزی جامعۃ المدینہ عالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ باب المدینہ کراچی
Comments