میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! ہماراروزمرہ کا مُشَاہَدہ ہے کہ لوگ بلا جھجھک (Without Hesitation) ایک دوسرے پر لعنت کرتے رہتے ہیں اور انہیں یہ احساس تک نہیں ہوتا کہ وہ کس قدر قبیح(بُرے)
فعل کا اِرْتِکاب
کر رہے ہیں ۔
لعنت در
حقیقت کیا ہے؟ حکیم الاُمّت مفتی
احمد یار خان نعیمی علیہ رحمۃ اللہ القَوی فرماتے ہیں: لعنت یعنی رحمتِ الٰہی سے دور ہوجانے کی بددعا کرنا ۔([1]) فرمانِ
مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمہے: لَعْنُ الْمُؤْمِنِ كَقَتْلِهٖ یعنی مومن پر لعنت
کرنا اسے قتل کرنے کی طرح ہے۔ ([2]) حضرت علّامہ عبدالرءوف
مُناوی علیہ رحمۃ اللہ
الکافی اس کی شرح میں
فرماتے ہیں:یعنی اس گناہ کوقتل کے گناہ کا دَرَجہ دیا گیا ہے۔([3])
بَسااوقات
کسی بدنامِ زمانہ شخص کو لعنت کا ہَدَف(Target) بنایا جاتا ہے، اس بارے میں اعلیٰ حضرت امام احمد
رضا خان علیہ رحمۃ الرَّحمٰن کے والد ماجد رَئِیسُ الْمُتَکَلِّمِیْن حضرت
علّامہ مولانا نقی علی خان علیہ رحمۃ
الحنَّان فرماتے ہیں: کسی پرلعنت کرنا ثواب نہیں، اگر
کوئی شخص دن بھر شیطان پر لعنت کرتا رہے، کیا
فائدہ! اس سے بہتر کہ اس قدر وقت ذکرودُرُود میں صَرْف کرے کہ عظیم ثواب ہاتھ آئے، اگر اس کام میں ہمارے لئے کچھ فائدہ ہوتا تو اللہ پاک شیطان پر لعنت کرنے کا حکم دیتا، لہٰذا احتیاط
اسی میں ہے کہ جس کے (کفرپر) مرنے کی (یقینی) خبر
نہ ہو اس پرلعنت نہ کرے اگر وہ لعنت کے لائق ہے تو اس پر
لعنت کہنے میں وقت ضائع کرنا ہے اور اگر
وہ لعنت کا مُسْتَحِق نہیں توبے وجہ گناہ اپنے سر لینا ہے۔([4]) یہاں تک کہ بے جان چیزوں پر بھی لعنت کرنے کو منع فرمایا
گیا اور بےقُصور پر لعنت کرنےوالے کو لعنت کاحقدار بننا قرار دیا گیا جیساکہ حدیثِ
پاک میں ہے کہ ایک بار نبیِّ کریم صلَّی اللہ
تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پاس ایک شخص نے کسی سبب سے
ہوا (Air) کو بُرا بھلاکہا اس پر آپ عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلاَم نے ارشاد فرمایا: ہوا کو بُرا بھلا نہ کہو کیونکہ یہ
تو (اللہ
پاک کے)حکم کی پابند ہے، جس
نے کسی ایسی چیز پر لعنت کی جس کی وہ اہل نہ تھی تو وہ لعنت اسی پر لوٹ آئے گی۔([5])
خوش قسمتی سے اگر ہم لعنت کرنے کے مذموم(قابل مَذَمَّت) عمل سے
بچے ہوئے بھی ہوں مگر بدقسمتی سےایسے کئی غیر شرعی کاموں میں مبتلا ہوتے ہیں جو
ہمیں لعنت کا مُسْتَحِق بنارہے ہوتے ہیں، قراٰنِ پاک اور احادیثِ مبارکہ میں ایسے کئی بدنصیب
لوگوں کا ذکر ہوا ہے، جن کو ذیل میں مختلف عنوانات کے تحت تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
مُعاشرتی لحاظ سے جھوٹ بولنے والا([6])، والدین کو گالی دینے والا([7])،شوہر کی ناراضی میں رات گزارنے والی عورت([8])، دوسروں کو
بُرے نام سے پکارنے والا([9])، فتنہ و فساد پھیلانے والا([10])، پَارْسا عورت پر بُرائی کا اِلزام لگانے والا([11])، دریا یا تالاب کے کنارے یا بیچ راستے میں یا پھر
درخت کے سایہ میں پیشاب کرنے والا([12]) اورزبردستی لوگوں پر حاکم بننے والا([13]) لعنت کے عِتاب
میں گرفتار ہیں۔
بننے
سنورنے کے لحاظ سے مرد جو عورتوں کی
اور عورت جو مردوں کی صورت اپنائے([14])، کسی انسان یا اپنے
ہی بالوں کو سر کے بالوں میں جوڑنے والی، جُڑوانے والی،اسی طرح ابرو (Eye Brow)کے بال نوچ کر
خوبصورت بنانے اور بنوانے والی اورکسی نوک دار چیز کے ذریعہ جلد میں رنگ بھرنے،
نقش و نگار(Tattoos)بنانے یا پھر نام لکھنے والی اوریہ عمل کروانے والی عورت بھی لعنت کی
سزاوار ہے۔([15])
مُعاشی لحاظ سے سودلینےاوردینے
والا، اس کے کاغذات (Documents)تیار کرنے والا اور اس پرگواہ بننےوالا([16])، شراب بنانے، بنوانے اوربیچنے والا، اس کی قیمت کھانے والا، شراب خریدنے
والا اور جس کے لئے شراب خریدی گئی سب لعنت کے مستحق ہیں۔ اس کے علاوہ شراب پینے پلانے
والے، شراب اُٹھانے والے اور جس کے پاس شراب اُٹھا کر لائی گئی یہ سب بھی ملعون
ہیں۔([17])
دینی لحاظ
سے جس نے کفر کیا اور کفر پر
مرا ([18])، اللہکی
وَحْدَانِیّت اور نبیِّ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی نبوت
کا انکار کرکے([19]) اللہ اور
اس کے رسول کو تکلیف پہنچانے والا([20])، بغیر علم کے شَرْعی مسائل بتانے والا([21])، تقدیر کو جھٹلانے والا، اللہ پاک کی حرام کردہ چیزوں
کو حلال سمجھنے والا، سنتِ رسول کوچھوڑدینے والا([22])اوربحیثیتِ قوم لوگوں کا نیکی کی بات کا حکم نہ دینا ، بُرائی سے منع نہ
کرنااورظالم کو ظلم سے روک کر اسے درست بات کی طرف نہ لانا بھی لعنت کا سبب ہے۔([23]) اس کے علاوہ جانوروں کے چہرے پر داغنا یا چہرے پر مارنا([24])، نعمت ملنے پر ڈھول باجے
بجانا اور مصیبت کے وقت چیخنا چلانا بھی لعنت کا سبب قرار دیا گیاہے۔ ([25])
یاد
رکھئے!دینِ اسلام میں جن کافروں پر لعنت کی گئی وہ ہمیشہ کے لئے اللہکی رحمت اور جنّت سے دور ہوگئے جیسے ابوجَہْل، فرعون وغیرہ جبکہ جن گناہگار
مسلمانوں پر لعنت کی گئی اس سے مراد اللہ تعالیٰ کی خاص رَحْمتوں،قُربتوں سے دور ہونا ہے، اس صورت میں بحیثیتِ مجموعی لعنت کرنا تو جائز ہے
جیسے جھوٹوں پر اللہ کی لعنت اور ظالموں پر خدا کی لعنت کہہ سکتے ہیں، کسی خاص
شخص پر لعنت نہیں کر سکتے۔([26])
آج کی بے
سُکون زندگی میں ہماری بداعمالیوں کا بڑا دَخْل ہے جیساکہ کہ مذکورہ جرائم کا مُرْتَکِب
ہونا رحمتِ الٰہی سے دور ہونے کا ایک سبب ہے یا دوسروں پر لَعْن طَعْن کرکے لڑائی
جھگڑےکے ذریعےنفرتوں کے بیج بونا باہمی
امن کے تباہ ہونےکی ایک بڑی وجہ ہے لہٰذا غضبِ الٰہی سے بچنے، رَحمتِ خداوندی
پانے، گھریلواور معاشرتی امن و امان حاصل کرنے کے لئے ہمیں دینِ اسلام میں بیان کئے گئے
لعنت کا مستحق بنانے والے اعمال سے بچنا
ہوگاساتھ ہی لَعْن طَعْن کرنےکے مذموم عمل کو بھی ترک کرنا ہوگا۔ رسولِ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم مؤمن کی شان بیان کرتے ہوئے ارشاد
فرماتے ہیں: مؤمن نہ طعنہ دینےوالا ہوتا ہے، نہ لعنت کرنے والا، نہ فُحْش بکنے
والا بے ہودہ ہوتا ہے۔([27])
اللہ پاک ہمیں لعن طعن کرنے اور لعنت کے
اسباب سے محفوظ فرمائے۔
اٰمِین
بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی
اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭… شعبہ فیضان اولیاءعلما،المدینۃالعلمیہ باب المدینہ کراچی
[1] مراۃالمناجیح،5/127
[2] بخاری،4/127،حدیث:6105
[3] فیض القدیر،5/472،تحت الحدیث:7621
[4] فضائل دعا ص197 بتغیر
[5] ترمذی، 3/394، حدیث:1985
[6] پ3،ال
عمرٰن: 61
[7] صحیح ابن
حبان، 4/298،حدیث:4400
[8] مسلم،ص578،حدیث:1436
[9] فیض القدیر، 6/163، تحت الحدیث:8666
[10] فیض
القدیر،4/606، تحت الحدیث: 5975
[11] پ18،نور:23
[12] ابوداؤد،1/43،حدیث:26
[13] مسلم،
ص623، حدیث:1508
[14] مسند
احمد، 1/727، حدیث: 3151
[15] ابوداؤد،4/106،
حدیث:4170، بہارِشریعت،3/596، مرقاۃ،8/ 245، تحت الحدیث:4468
[16] مسلم،
ص663، حدیث:1598
[17] ترمذی،
3/47،حدیث:1299
[18] پ2،بقرہ:161
[19] مدارک،ص950
[20] پ22،
احزاب:57
[21] کنزالعمال،
جزء:10، 5/84، حدیث:29014
[22] مستدرک،3
/375، حدیث:3996
[23] ابوداؤد،
4/163، حدیث:4337
[24] ابوداؤد،
3/37، حدیث:2564
[25] کنزالعمال،
جزء:8، 15/95،حدیث:40654
[26] فضائلِ
دعا،ص192ملخصاً
[27] ترمذی،3/393، حدیث:1984۔
Comments