آج کاشف کا محلے کے لڑکوں سے پھر
جھگڑا ہوا تھا، انہوں نے اسے نہ صرف گالیاں بکیں بلکہ بے تحاشا ماراپیٹا بھی۔ وہ
تین تھے یہ اکیلا، لہٰذا یہ ان کا مقابلہ نہ کرپایا لیکن کاشف کے دل و دماغ میں آگ
لگی ہوئی تھی۔ اس نے فوراً بدلہ لینے کی ٹھانی
اور تیزی سے گھر پہنچا، الماری سے ابّو کا پستول نکالا، گولیاں چیک کیں اور
واپس ہونے لگا، لیکن ایک دم رُک گیا، اس کے کانوں میں اپنے کلاس فیلو فاروق رضاعطّاری
کی آواز گونجنے لگی کہ جب بھی کوئی بُرا کام کرنے کا خیال آئے تو یہ سوچ لینا کہ
اس کے بعد کیا ہوگا؟یہ مدنی پھول کاشف کو اس وقت ملا تھا جب وہ دونوں کالج سے باہَر
نکل رہے تھے۔ اب اس نے تصور کرنا شروع کیا تو دیکھا کہ اس نے گلی میں پہنچتے ہی
ہنس ہنس کر ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مار کر اپنی فتح کا جشن منانے والوں کو
سنبھلنے کا موقع ہی نہ دیا اور ساری گولیاں ان کے جسم میں اُتار کر انہیں اگلے
جہان پہنچا دیا، آناً فاناًلوگ اکٹھے ہوئے، پولیس بلالی گئی جو اُسے گرفتار کرکے
تھانے لے گئی۔ پھراسے اپنے باپ کا اُترا ہوا چہرہ دکھائی دیا، اس کی
آنکھوں میں آنسو اور ہونٹوں پر سوالات تھے ۔ کاشف کیا جواب دیتا وہ توشرم کے مارے
باپ سے نگاہیں بھی نہیں ملاسکا۔اس کا کیس کورٹ پہنچا، باپ نے بھاری فیسوں پر نامور
وکیل کئے مگر ثبوت اور گواہ مضبوط تھے لہٰذا اسے عمر قید کی سزاسنا دی گئی۔ ماں اور چھوٹا بھائی جیل
میں ملنے آئےتو ان کے چہرے کی اداسی نے کاشف کو تڑپا کر رکھ دیا، چھوٹے بھائی
کی آنکھوں میں سوال تھا: کاش آپ ایسا نہ کرتے، لوگ مجھے طعنے دیتے ہیں کہ اس
کا بھائی قاتل ہے، محلے کے لڑکے مجھ سے بات
کرنا پسند نہیں کرتے، ماں نے اسے بتایا کہ تمہاری بہن کا رشتہ بھی لڑکے
والوں نے ختم کردیا ہے۔ ان کے جانے کے بعد وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگاکہ کاش!وہ خود پر کنٹرول
رکھتا تو یہ دن نہ دیکھنا پڑتے۔ اچانک کسی چیز کے زمین پر گِرنے کی آواز آئی اور کاشف
تصورات کی دنیا سے واپس آگیا، دیکھا تو پستول اس کے ہاتھ سے گِرچکا تھا، اس کا جسم
پسینہ پسینہ تھا۔”اس کے بعد کیا ہوگا؟“ وہ دیکھ چکا تھا، اس کا سارا غصہ
جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔ اب تو کسی کو قتل کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ کاشف
دل ہی دل میں اپنے کلاس فیلو فاروق رضا عطّاری کو دعائیں دینے لگا۔
نوجوان اسلامی بھائیو!اس فرضی حکایت سے ہمیں بھی سبق لینا
چاہئے کہ جب بھی کوئی کام کرنے لگیں تو تھوڑا رُک جائیں اور اس کے انجام کے بارے
میں سوچ لیں۔ایک شخص نےنبیِّ کریم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے عرض کی کہ مجھے نصیحت فرمایئے، تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: کام تدبیر سے اِختیارکرو،
پھر اگر اس کے اَنجام میں بھلائی دیکھو تو کر گزرو اور اگر گمراہی کا خوف کرو تو
باز رہو۔(شرح
السنۃ للبغوی،ج 6،ص545، حدیث:4943) یعنی جو کام کرنا ہو پہلے اس کا
اَنجام سوچو پھر کام شروع کرو، اگر تمہیں کسی کام کے اَنجام میں دِینی یا دنیاوی
خرابی نظر آئے تو کام شروع ہی نہ کرو اور اگر شروع کرچکے ہو تو باز رہ جاؤ اسے پورا نہ کرو۔(مراٰۃ المناجیح،ج 6،ص626) اے کاش! ہم ہر کام سے پہلے ہی اس کے نتائج پر غور
کرلیں تو کئی نقصانات سے بچ سکتے ہیں مثلاً ٭تیز رفتاری سے بائیک (موٹرسائیکل)، کار، بس یا ٹرک وغیرہ چلانے سے
پہلے سوچ لیں کہ دیر سے پہنچنا نہ پہنچنے
سےبہتر ہے، اگر رفتار کی حد کراس کرنے کی وجہ سے حادثہ پیش آگیا تواپنی جان کے
ساتھ ساتھ نہ جانے اور کتنی جانیں جاسکتی ہیں اور اگر بچ بھی گئے تو ہاتھ پاؤں بے
کار ہونے کی صورت میں بقیہ زندگی بیساکھیوں یا ویل چئیر (Wheelchair) پر بھی گزارنا
پڑ سکتی ہے ٭گاہگوں سے اُلجھنا، انہیں بےعزّت کر کے اپنی
دکان سے نکال کر فتح کا احساس ہمیں خوش تو کرتا ہے لیکن جب ہماری انہی حرکتوں کی
وجہ سے گاہگ ٹُوٹ جاتے ہیں تو پھر ہم گاہگوں کی کمی سے پریشان ہونا شروع ہوجاتے
ہیں، بعض اوقات تو کاروبار چلانا دُشوار ہوجاتا ہے ٭دفتری ماحول میں ساتھیوں سے لڑنا
جھگڑنا، ان کے کاموں میں ٹانگ اَڑانا انہیں پریشان کردیتا ہے، جس کے نتیجے میں وہ
بھی آپ کو پریشان کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے، سکون باقی نہیں رہتا
تو کارکردگی کمزور ہوجاتی ہے، یوں بالآخر نوکری بھی جاتی رہتی ہے ٭چھوٹی چھوٹی باتوں پر نوکری سے
استعفیٰ دینے والے کسی جگہ ٹِک کر کام نہیں کر
سکتے یوں ایک وقت
ایسا آتا ہے کہ کوئی ان کو ملازمت دینے پر تیار نہیں ہوتا ٭چھوٹی سی بات پر طیش میں آکر طلاق دینے والے طلاق تو دے دیتے ہیں لیکن جب ان کا جوش ٹھنڈا ہوتا ہے
تب انہیں ہوش آتا ہے لیکن واپسی کے راستےبسا اوقات دُشوار
ترین ہو چکے ہوتے ہیں ایسے میں ان
کے ہاتھ پچھتانے کے سِوا کچھ نہیں رہ جاتا ٭پڑھائی کرنے کے بجائے آوارہ گردیوں
میں وقت ضائع کرنے والے نوجوان جب امتحان میں فیل ہوجاتے ہیں تو ان کے منہ لٹک
جاتے ہیں بعض تو ڈِپریشن کے مارے خودکشی تک کرلیتے ہیں٭موٹر سائیکل پر وَن وِیلنگ (One Wheeling) کرنا کئی نوجوانوں کا محبوب مشغلہ
ہے، بعضوں کے والدین کو ان کے شوق کی خبر تک نہیں ہوتی، ایسوں کو سمجھایا جائے تو
اس طرح کاجواب ملتا ہے:کچھ نہیں ہوتا، شوق کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔ لیکن جب وہ وَن
وِیلنگ کے دوران حادثے کا شکار ہوکر اپنے ہاتھ پاؤں تُڑوا بیٹھتے ہیں یا ان کی جان ہی چلی جاتی ہے توان کے ماں
باپ، بہن بھائیوں پر کیا گزرتی ہے، ذرا تصور کی آنکھ سے دیکھ لیں تو وَن وِیلنگ
کرنا تو دُورکی بات اس بارے میں سوچنا بھی چھوڑ
دیں گے۔ وَن وِیلنگ
کے حوالے سے بطورِ نمونہ دو افسوسناک واقعات ملاحظہ ہوں:چنانچہ (1)عید الفطر کے
موقع پر لاہور میں وَن وِیلنگ کرتے ہوئے ایک نوجوان ہلاک اور آٹھ
زخمی ہوگئے (نوائے وقت آن لائن، 23اگست 2012 بالتصرف) (2)دارالسلام (ٹوبہ، پنجاب) میں عید کے
دوسرے روز وَن وِیلنگ کرتے ہوئے نوجوان موٹر سائیکل سوار فیملی سے ٹکرا گئے۔ حادثے میں دو خواتین
سمیت 10افراد زخمی ہوگئے جن میں سے دو نوجوانوں کی ٹانگیں ٹوٹ گئیں۔ ٭انٹرنیٹ کے ذریعے موبائل یا لیپ ٹاپ
وغیرہ پر گندی تصویریں اور ویڈیوز دیکھنے کے شوقین اس نشے میں ایسا مبتلا ہوتے ہیں
کہ انہیں نہ اپنی پڑھائی کی فکر رہتی ہے نہ کاروبار کی، چُھپ چُھپ کر اس طرح کی
چیزیں دیکھنے والے پردہ ہلنے یا دروازہ
کھلنے کی آواز پر تو چونک جاتے ہیں اور ڈرتے ہیں کہ گھر کاکوئی فرد انہیں ایسا
کرتے ہوئے دیکھ نہ لے ،کاش! وہ یہ احساس کرتے کہ ”اللہ دیکھ رہا ہے“ تو اس طرح کی چیزوں کے قریب ہی نہ جاتے۔
اللہ پاک ہمیں بُرے کاموں اور ان کے بُرے
انجام سے بچائے اور اچھے کاموں کی توفیق عطا فرمائے۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭…مدرس مرکزی جامعۃ المدینہ
،عالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ ،باب المدینہ کراچی
Comments