فرمانِ مصطَفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ہے:اَلبَرَکَۃُ مَعَ اَکَابِرِکُم یعنی بَرَکت تمہارے بُزُرگوں کے ساتھ ہے۔(مستدرک،ج1،ص238، حدیث:218) بُزُرگانِ دین رحمۃ اللہ علیہم کے نقشِ قدم پر چلنا بہت بڑی سعادت ہے کیونکہ یہ وہ
ہستیاں ہیں جنہوں نے اپنی زندگیوں کو اسلامی احکامات کے مطابق گزارنے کی کوشش کی، دنیا
و آخرت کی کامیابیاں ان کا مقدر بنیں، ہمیں چاہئے کہ اللہ پاک اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اَحکامات پر اِسی طرح سرِ تسلیم
خم کریں جیسے ان بُزُرگانِ دین رحمۃ
اللہ علیہم نے کیا تھا، ان پاکیزہ ہستیوں کی
کتابِ زندَگی کا ایک ایک صَفْحہ ہمارے لئے راہنُمائی کی دستاوِیز ہے۔ اس ضِمْن میں 14مدنی پھول قَبول فرمائیے: (1) اگر کسی کو بچپن ہی سے ماں باپ کی جُدائی
کا صدمہ برداشت کرنا پڑے تو وہ حضرتِ سیِّدُنا موسیٰ کلیمُ اللّٰہ علیہ الصَّلٰوۃ وَ السَّلام کی آزمائش یاد کرے کہ کس طرح آپ علیہ الصَّلٰوۃ وَ السَّلام کی والِدہ ماجِدہ رحمۃ اللہ علیہا نے آپ کو فرعون جو کہ آپ کے قتل کے
دَرپے تھا، اُس سے بچانے کے لئے دریائے نیل کی موجوں کے حوالے کردیا تھا۔ (2)اگر
شریعت کا کوئی حکم مشکِل محسوس ہو تو حضرتِ سیِّدُنا ابراہیم خلیلُ
اللّٰہ علیہ الصَّلٰوۃ وَ السَّلام کو یاد کرے کہ کس طرح حکمِ الٰہی کی اطاعت میں اپنے چہیتے بیٹے کو
ذَبح کرنے پر تیّار ہوگئے تھے۔ (3)اگر کوئی
مَصائب و آلام میں مبتَلاہو تو حضرتِ سیِّدُنا ایُّوب علیہ الصَّلٰوۃ وَ السَّلام کی بیماری اور اس پر آپ علیہ الصَّلٰوۃ وَ السَّلام کے عظیم صَبْر کو یاد کرے۔ (4)اگر
کسی کو مَنصب و حکومت ملے تو حضرتِ سیِّدُنا سُلَیمان علیہ الصَّلٰوۃ وَ السَّلام کی سیرتِ مبارَکہ پر چلے کہ اتنی بڑی سلطنت ہونے کے باوُجُود لمحہ بھر کیلئے
بھی یادِ الٰہی سے غافل نہ ہوئے اور حضرتِ سیِّدُنا
عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کے نقشِ قدم پر چلے کہ جنہوں نے حُکومت ملنے کے بعد اپنی
بیوی کا قیمتی ہار بھی مسلمانوں کی
خیرخواہی کی ترغیب دِلا کربیتُ المال میں جمع کروا دیا تھا۔ (5)اگر کسی کا لاڈلا بیٹا
کھو جائے تو وہ حضرتِ سیِّدُنا یعقوب علیہ الصَّلٰوۃ وَ السَّلام کو یاد کرے کہ کس طرح آپ علیہ الصَّلٰوۃ وَ السَّلام نے حضرتِ سیِّدُنا یوسُف علیہ الصَّلٰوۃ وَ السَّلام کے بِچھڑنے پر صَبْر کیا تھا۔ (6)اگر کوئی عورت دعوتِ گناہ دے تو حضرتِ سیِّدُنا
یوسُف علیہ الصَّلٰوۃ وَ السَّلام کو یاد کرے جنہوں نے قید میں جانا تو گوارا کرلیا
مگر اپنے دامن پر کوئی داغ نہ لگنے دیا۔ (7)اگر
کسی کو دِین کی خاطِر اپنا عَلاقہ چھوڑنا
پڑے تو وہ اپنے آبائی شہر مکّۂ مکرَّمہ زادہَا اللہ شرفاً وَّ تعظیماً
کو چھوڑ کرمدینۂ منوَّرہ زادہَا اللہ شرفاً وَّ تعظیماً کو ہِجرت کرنے والے عظیم مسافریعنی
میٹھے میٹھے آقا مکّی مَدَنی مصطَفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو یاد کرے۔(8)اگر تبلیغِ اسلام کی راہ میں کوئی
زَخم لگے تو حضرتِ سیِّدُنا ابوبکر صِدّیق رضی اللہ عنہ کو یاد کرے جنہوں نے کعبۂ مُشرَّفہ کے قریب کھڑے ہوکر بیان کرنے کے
نتیجے میں کفّارِ جَفاکار کی ظالمانہ مار سہی تھی۔ (9)اگر کبھی عَدْل و انصاف کرنے کا موقع ملےاور
قدم ڈگمگائیں تو حضرتِ سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کے انصاف کو یاد کرے جس کی گواہی
غیر مسلم بھی دیتے ہیں۔ (10)اگر راہِ خدا میں خَرچ کرنے کا موقع ملے اور نفس و
شیطان حیلے بہانےسجھائے تو حضرتِ سیِّدُنا عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کی سَخاوت کو ذِہن میں لائے کہ
اُنہوں نے کبھی راہِ خدا میں خَرْچ کرنے سے دَرَیغ نہیں کیا۔ (11)دشمنانِ اسلام سے
مقابلہ ہو تو حضرتِ سیِّدُنا مولیٰ علی کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم کی شُجاعَت کو یاد کرکے
اپنا حوصلہ بڑھائے۔ (12)راہِ علم میں سفر درپیش ہو تو حضرتِ سیِّدُنا ابوہُریرہ رضی اللہ عنہ کے شوقِ علم کو سامنے رکھتے ہوئےآگے
بڑھتا جائے۔ (13)مسلمانوں میں صُلح کروانے کا موقع ملے تو حضرتِ سیِّدُنا
امامِ حَسَن مُجْتَبٰی رضی اللہ عنہ کی عظیم حکمتِ عملی کو پیش نظر رکھے ۔ (14)راہ ِخدا میں جان دینے کا موقع
آپڑے تو سیِّدُالشُّہَدَاء سیِّدُنا امامِ حسین رضی اللہ عنہ کی عظیم شہادت کویاد
کرے۔ اَلْغَرَض ہم زندگی کے ہر
ہر مُعامَلے میں بزرگانِ دین رحمۃ
اللہ علیہم کے نقشِ قدم پر چلنے کی سعادت پاسکتے ہیں۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭…مُدَرِّس مرکزی جامعتہ المدینہ، عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ ، باب المدینہ کراچی
Comments