چُھٹی کا دن تھا، شوہر حسبِ معمول موبائل پر مصروف تھا اور
بیوی قریب بیٹھی پیپرچیک کررہی تھی۔ اچانک اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ کیا ہوا؟ کیوں رو رہی
ہو؟ شوہر نے گھبرا کر پوچھا۔ میں نے آج اپنی کلاس میں بچوں کو ماہانہ ٹیسٹ میں لفظ’’کاش!‘‘کے تحت
ایک مضمون ((Essay لکھنے کو دیا تھا، بچوں نے
مختلف عنوانات (Topics) پر لکھا ہے: کسی نے’’ کاش! میں قلم ہوتا‘‘پر لکھا تو کسی نے’’
کاش! میں کتاب ہوتا ‘‘وغیرہ کے عنوان پر، لیکن ایک بچے کے مضمون نے مجھے افسردہ (Depressed)کردیا
اور میں اپنے آنسوؤں پر قابو نہ رکھ سکی ۔شوہر کہنے لگا :اس نے ایسا کیا لکھ دیا؟
جواب میں بیوی نے کہا:اس بچے نے ’’کاش! میں موبائل ہوتا‘‘ کے تحت لکھا ہے :میں
اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا ہوں، اب ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وہ مجھ پر خصوصی توجہ
دیتے، میری بات سنتے، میرے مسائل(Problems)کو سمجھتے اور ان کو حل کرتے مگر ایسا نہیں ہے، اب تو میں ان کی رہی سہی
توجہ سے بھی محروم ہورہا ہوں، ابوایک فرم میں اہم عہدے پر ہیں، وہ گھر پر آتے ہیں
تو موبائل فون میں مصروف ہوجاتے ہیں، میں کچھ بات کرنا چاہوں تو کہتے ہیں: اپنی
امی سے بات کرلو۔اگر کبھی سننے پر تیار ہوبھی جائیں تو جونہی موبائل کی بیل بجتی
ہے بات ادھوری (Incomplete) چھوڑ کر فوراً موبائل اٹھاتے ہیں، اسی طرح امی
بھی موبائل میں مصروف رہتی ہیں، کاش ! میں موبائل ہوتا، تو کم از کم اپنے امی ابو کیلئے
اہم تو ہوتا ! ان کے پاس میرے لئے وقت ہی وقت ہوتا!یہ سن کر شوہر نے کہا: ٹھیک ہے
کہ یہ بچہ اپنے والدین کے رویّے (Attitude) کی وجہ سے پریشان ہے لیکن تم کیوں رو رو کر اپنی جان
ہلکان کررہی ہو؟ بیوی تڑپ کر بولی: یہ سب کچھ کسی اور نے نہیں ہمارے اپنے اکلوتے
بیٹے نے لکھا ہے ۔ اب شوہر بھی شرم کے مارے کچھ بول نہ پایا اور
آنکھیں بند کرکے اپنے رویّے پر پچھتانے لگا۔
میٹھے میٹھے اسلامی
بھائیو!اس دنیا میں ہرشخص کسی نہ کسی حوالے سے مصروف ہے، لیکن بارہا ایسا ہوتا ہے
کہ ایک مصروفیت کی وجہ سے دوسرا اہم کام کرنے سے رہ جاتا ہے جیسا کہ فرضی حکایت
میں بیان کیا گیا ہے۔ اسی طرح ٭بیٹا کمانے میں اتنا مصروف ہوجاتا ہے کہ بوڑھے والدین
کے پاس تھوڑی دیر بیٹھنے اور ان سے پیار کے دوبول بولنے کا موقع نہیں ملتا ٭ بیوی گھر اور بچوں
میں اتنی مصروف ہوجاتی ہے کہ سکون سے بیٹھ کر شوہر کی بات سننے کے لئے اس کے پاس
وقت نہیں ہوتا ٭اپنی اپنی مصروفیات کی وجہ سے پڑوسی اتنا قریب رہتے ہوئے بھی ایک دوسرے کے
دُکھ سُکھ میں شریک نہیں ہوپاتے ٭ گھر کا مالک اتنا مصروف ہوتا ہے کہ اس کے پاس دن رات
ڈیوٹی کرنے والے گھر کے چوکیدار کی طرف مسکرا کر دیکھنے کا وقت نہیں ہوتا ٭بعضوں کی دفتری
مصروفیت اتنی ہوتی ہے کہ وہ دفتر کا کام گھر پر بھی لے آتے ہیں جس کے نتیجے میں
گھریلوزندگی نارمل نہیں رہتی ٭باپ دولت کمانے میں اتنا مصروف ہوجاتا ہے کہ اسے خبر
ہی نہیں ہوتی کہ اس کی اولاد کیسی صحبت (Company) میں اُٹھتی بیٹھتی ہے! اس کے اخلاق بگڑ رہے
ہیں یا سنور رہے ہیں! ٭بعض اپنے دوستوں کے ساتھ ایسے مصروف ہوتے ہیں کہ قریبی رشتہ داروں بلکہ
سگے بھائی کو بھی وقت نہیں دیتے ٭بعض لوگ مختلف کاموں میں ایسے مصروف ہوتے ہیں کہ اہم
ترین کام فرض نمازوں کی ادائیگی سے بھی مسلسل محروم رہتے ہیں۔ خلاصہ یہ کہ
مصروفیات کی بھرمار ہمیں سوچنے کی فرصت ہی نہیں دیتی کہ ہم کس کس کو نظر انداز
کررہے ہیں!
انعام بھی سزا بھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ
جس مصروفیت کو ہم بہت اہم سمجھ رہے ہوتے ہیں وہ حقیقتاً اہم نہیں ہوتی بلکہ کم اہم
یا بے کار ہوتی ہے، اس بات کو ایک حکایت سے سمجھئے: مشہور ہے کہ خلیفہ ہارون
رشید کے دربار میں ایک شخص پیش ہوااور اپنے کمالات دکھانے کی اجازت چاہی۔ اجازت
ملنے پر اس نےزمین میں ایک سوئی کھڑی کی اور خود کچھ فاصلے پر جاکر ایک اور سوئی
نشانہ لے کر پھینکی، وہ سوئی پہلی سوئی کے ناکے (Hole) میں پہنچ گئی۔یہ دیکھ کر
حاضرین نے خوب داد دی مگر ہارون رشید نے حکم دیا کہ اسے ایک دینار انعام میں دیا
جائے اور دس کوڑے مارے جائیں۔ لوگوں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگا: ایک دینار اس کی
محنت اور نشانے میں مہارت کا انعام ہے لیکن اس نے اپنا وقت ایسے
کام میں صَرف (خرچ،Spent)کیا جس کا دوسروں کو کوئی فائدہ نہیں لہٰذا میں نے اس کو دس
کوڑے مارنے کی سزا دی ۔
اس
حکایت میں اپنا وقت ون ویلنگ، پتنگ بازی، کھیل تماشوں، مختلف کرتب اور فضول کام سیکھنے
میں خرچ کرنے والوں کے لئے خاص طور پر سبق ہے کہ ’’کرنے کے کام کرو ورنہ، ناکرنے کے کاموں میں پڑ جاؤ گے۔‘‘
اسلام کی
حسین تعلیم فرمانِ مصطَفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی
علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: مِنْ حُسْنِ اِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْكُهُ مَا لَا
يَعْنِيهِ یعنی انسان کے اسلام کی
خوبیوں میں سے ایک خوبی فضول باتوں کوچھوڑ دینا ہے۔
(ترمذی،ج4،ص142،حدیث:2324)
اس
حدیثِ پاک کی شرح میں حکیمُ الاُمّت مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الرَّحمٰن فرماتے ہیں: یعنی کامل مسلمان وہ ہے جو ایسے
کلام، ایسے کام، ایسی حرکات و سکنات سے بچے جو اس کے لیےدین یا دنیا میں مفید نہ
ہوں، وہ کام یا کلام کرے جو اسے یا دنیا میں مفید ہو یا آخرت میں۔(مراٰۃ المناجیح،ج6،ص465)
زندگی کن کاموں میں گزاری؟ قیامت کے دن ایک سوال یہ بھی
ہوگا:عمر کن کاموں میں صرف کی؟ (ترمذی،ج4،ص188،حدیث:2424ماخوذاً)
میٹھے
میٹھے اسلامی بھائیو! ہم میں سے ہر ایک کو اپنی اپنی مصروفیات کا جائزہ لینا چاہئے
کہ کہیں ہماری مصروفیات گناہوں بھری تو نہیں ہیں؟ مثلاً فلمیں ڈرامے دیکھنا، میوزک
سننا، سود و رشوت کی وصولی، زمینوں پر قبضے، اِغْوا برائے تاوان وغیرہ گناہوں بھری
مصروفیات ہی تو ہیں۔ اس کے برعکس فرض نمازوں کی ادائیگی، علمِ دین سیکھنا، نیکی کی
دعوت دینا، صلۂ رحمی(رشتے
داروں کے ساتھ اچھا سلوک) کرنا، رزقِ حلال کمانا
وغیرہ نیکیوں پر مشتمل مصروفیات ہیں۔ رہیں وہ مصروفیات جن کا
نہ دنیا میں کوئی فائدہ نہ آخرت میں! تو وہ فضول وبے کار مصروفیات ہیں۔
اللہ پاک ہمیں اپنی زندگی
امتحانِ آخرت کی تیاری میں مصروف رہ کر گزارنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
اٰمِیْن
بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭…مدرس مرکزی جامعۃالمدینہ،عالمی
مدنی مرکز فیضان مدینہ ،باب المدینہ کراچی
Comments