انسانوں کی تین قسمیں امیرالمؤمنین حضرتِ سیّدنا عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں:آدمی تین قسم کے ہیں ایک وہ آدمی جو معاملات میں اپنی مستقل اور مضبوط رائے رکھتا ہے، دوسرا وہ جس کی اپنی رائے مستقل نہیں ہوتی لیکن وہ مستقل رائے والوں سے مشورہ کرکے اپنے معاملات چلاتا ہے اور تیسرا وہ آدمی جس کی نہ اپنی رائے مستقل ہوتی ہے نہ وہ کسی سے مشورہ کرتا ہے،ایسا شخص پریشان رہتاہے۔ (ادب الدنیا والدین، ص473)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! مشورہ کے معنیٰ ہیں کسی معاملے میں کسی کی رائے دریافت کرنا۔ کام کسی بھی نوعیت کا ہو! اسے کرنے کے لئے کسی سے مشورہ کر لینا بہت مُفید ہے۔ اللہ پاک نے اپنے نبیِّ پاک صاحبِ لولاک صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو صائِبُ الرَّائے (یعنی درست رائے والا) ہونے کے باوجود صَحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان سے مشورہ لینے کا فرمایا کہ اس میں اُن کی دلجوئی بھی تھی اور عزّت افزائی بھی! چنانچہ مشورہ کرنا سنّتِ سرکار ہے۔ آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے میدانِ بدر میں جگہ کے انتخاب کے لئے حضرت سیّدنا حُبَاب بِنْ مُنْذِر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا مشورہ قبول فرمایا جس کا مسلمان لشکر کو فائدہ ہوا۔ (تاریخ اسلام،ج3،ص286) مشورہ کرنا بَرَکت کی چابی (Key) ہے جس کی وجہ سے غلطی کا امکان کم ہوجاتا ہے۔ امیرالمؤمنین حضرت سیّدنا عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ نوجوان اورعمر رسیدہ دونوں طرح کے علمائے کرام سے مشورہ کیا کرتے تھے۔ حضرتِ سیّدنا عمر بن العزیز رضی اللہ تعالٰی عنہ خلیفہ بننے سے پہلے جب مدینے شریف کے گورنر بنے تو پہلا کام یہ کیا کہ وہاں کے فُقَہائے کرام کو جمع کرکے ان سے مشورہ کیا اور ان کی باقاعدہ مجلسِ شوریٰ بنادی جو آپ کو ضرورتاً مشورے دیا کرتی تھی۔ (البدایۃ والنھایہ،ج6،ص332)
غلط مشورہ لے ڈوباحضرت سیّدنا موسیٰ کلیمُ اللہ اور حضرت سیّدُنا ہارون علٰی نَبِیِّنَاوعلیہما الصَّلٰوۃ وَالسَّلام نے جب خُدائی کا جُھوٹا دعویٰ کرنے والے فرعون کو ایمان کی دعوت دی تو اس نے اپنی بیوی حضرت سیّدتنا آسیہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے مشورہ کیا۔ انہوں نے ارشاد فرمایا: کسی شخص کیلئے مناسب نہیں ہے کہ ان دونوں کی دعوت کو رَد کردے۔ فرعون اپنے وزیر ہامان سے مشورہ کئے بغیر کوئی کام نہیں کرتا تھا، جب اس نے ہامان سے مشورہ کیا تو اس نے کہا: میں تو تمہیں عَقْل مند سمجھتا تھا! تم حاکم ہو، یہ دعوت قبول کرکے محکوم بن جاؤ گے اور تم رب ہو،اسے قبول کرنے کی صورت میں بندے بن جاؤ گے! چنانچہ ہامان کے مشورے پر عمل کی وجہ سے فرعون دعوتِ ایمان کو قبول کرنے سے محروم رہا۔ (تفسیر روح المعانی، پ16،طٰہٰ، تحت الاٰیۃ:49،جزء16ص682)
مشورہ کس سے کیا جائے؟ ہر کسی سے مشورہ لینا دانشمندی نہیں اور نہ ہر کوئی ہر معاملے میں دُرُست مشورہ دینے کا اَہل ہوتا ہے،چنانچہ کوئی بھی شخص گاڑی کے ٹائروں کے بارے میں کسی ڈاکٹر سے مشورہ نہیں کرے گا اور نہ کپڑے کے تاجِر سے سونے کے زیورات کے بارے میں مشورہ کرے گا عَلٰی ھٰذَا الْقِیَاس (یعنی اسی پر قیاس کرلیجئے)۔ چنانچہ مشورہ ایسے لوگوں سے کیجئے جو تجرِبہ کار، عَقْل مند، تقویٰ والے، خیرخواہ اور بے غرض ہوں، اس کے فوائد آپ خود ہی دیکھ لیں گے اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ۔
غلط مشورہ نہ دیجئے جس سے مشورہ کیا جائے اسے چاہئے کہ دُرُست مشورہ دے ورنہ خائِن (یعنی خیانت کرنے والا) ٹھہرے گا، فرمانِ مصطَفٰے صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: جو اپنے بھائی کوجان بوجھ کر غَلَط مشورہ دے تواس نےاپنے بھائی کے ساتھ خیانت کی۔ (ابوداؤد،ج 3،ص449، حدیث:3657) یعنی اگر کوئی مسلمان کسی سے مشورہ حاصل کرے اور وہ دانستہ غَلَط مشورہ دے تاکہ وہ مُصیبت میں گرفتار ہو جائے تو وہ مُشیر (یعنی مشورہ دینے والا) پکّا خائن ہے خیانت صرف مال ہی میں نہیں ہوتی، راز، عزت، مشورے تمام میں ہوتی ہے۔(مراٰۃ المناجیح،ج1،ص212)
مشورہ دیجئے حکم نہیں مشورے اور حکم میں فرق ہوتا ہے، اس کا بیان قراٰنِ کریم میں بھی موجود ہے چنانچِہ ارشادِ ربِّ عظیم ہے:( وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ ) تَرجَمۂ کنز الایمان: اور نماز قائم رکھو۔ (پ1، البقرۃ: 43) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) یہ حکم ہے جس کا تارِک گنہگار ہے، جبکہ سورۂ بقرہ کی آیت 282 میں ہے:( یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا تَدَایَنْتُمْ بِدَیْنٍ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوْهُؕ ) تَرجَمۂ کنز الایمان: جب تم ایک مقرّر مدّت تک کسی دَین کا لین دَین کرو تو اسے لکھ لو۔ (پ3، البقرۃ: 282) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) یہ قراٰنِ پاک کا مشورہ ہے جس پر عمل نہ کرنا گُناہ نہیں، حکم دینے میں اللہ تعالیٰ کی سلطنت و قدرت جلوہ گر ہے اور اس کے مشورے میں رحمانیت آشکار ہے۔(مراٰۃُ المناجیح،ج 1،ص153 ماخوذاً)
اسی طرح نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے جہاں احکامات دیئے وہیں کئی مقامات پر بہت سی باتیں بطورِ مشورہ بھی ارشاد فرمائیں۔ یونہی بادشاہ، قاضی وغیرہ بہت سی باتیں حُکماً کہتے ہیں اور کچھ مشورۃً! چنانچہ مشورہ دینے والے کو چاہئے کہ مشورے کو مشورہ ہی سمجھے۔ انداز حُکمی یا حتمی نہیں بلکہ کچھ اس طرح ہونا چاہئے کہ اگر یہ صورتحال مجھے دَرپیش آتی تو میں یہ قدم اُٹھاتا یا فیصلہ کرتا! مشورہ دے کر کسی کو مجبور نہ کریں کہ میرا مشورہ ضَرور مانوبلکہ رائے دے کر یہ فیصلہ اس پر چھوڑ دیں کہ وہ اس مشورے پر مکمل عمل کرے یا جُزوی طور پر یا پھر بالکل ہی عمل نہ کرے۔ ”میرے مشورے پر عمل کیوں نہیں کیا؟“، ”جب عمل نہیں کرنا تھا تو مشورہ مانگا کیوں تھا“، ”میرے مشورے پر چلتے تو نقصان نہ ہوتا“ اس طرح کے جُملے بول کر کسی کو پریشان اور اپنی عزّت میں کمی نہ کرے، اَلْعَاقِلُ تَکْفِیْہِ الْاِشَارَۃُ یعنی عقل مند کو اشارہ کافی ہوتا ہے۔
بِن مانگے مشورہ نہ دیا کریں جو چیز طَلَب کرکے لی جائے اس کی قدر زیادہ ہوتی ہے اور جو مُفْت میں مل جائے اس کی ناقدری زیادہ ہوتی ہے۔ اس لئے جب تک آپ سے مشورہ مانگا نہ جائے اس وقت تک خاموش رہنے میں عزّت وعافیت ہے ورنہ سامنے والا منہ پھٹ ہوا تو یہ بھی کہہ سکتا ہے: ”آپ سے کسی نے پوچھا ہے؟“ لیکن کیا کیجئے! ہمارے مُعاشرے میں بِن مانگے مشورے دینے والوں کی کمی نہیں۔
کار خرید لیں ایک شخص کا بیان ہے کہ میں ایک مرتبہ رات کے وقت گھر جاتے وقت گلی کے کونے کی دکان پر انڈے، ڈبل روٹی وغیرہ لینے کے لئے رُکا۔ دُکاندار نے بقایا پیسے دینے کے بعد ایک تنقیدی نَظَر میری پرانی بائیک پر ڈالی اور مجھے وہی مُفْت مشورہ دیا جو کئی لوگ دے چکے تھے: اب آپ گاڑی لے لیں۔ اس کا بِن مانگا مشورہ سن کر ایک لمحے کے لئے میرا دماغ کھول گیا مگر میں نے اپنے غصّہ پر قابو پاتے ہوئے کہا: اچّھا ہوا! آپ نے خود ہی اجازت دے دی، مجھے ڈر تھا کہ آپ گاڑی لینے سے منع کردیں گے۔ یہ سن کر ایک لمحے کے لئے وہ ہکابکا رہ گیا پھر جب اسے احساس ہوا تو معذرت کرنے لگا، میں نے اسے سمجھایا کہ بھائی! بائیک چلانے میں جو بے آرامی و بےسکونی مجھے ہوتی ہے وہ آپ کو تو نہیں ہوسکتی؟ گرمی، سردی، بارش، دُھند کا بھی سامنا رہتا ہے! ان سب باتوں کے باوجود اگر میں گاڑی نہیں لے رہا تو آخر کوئی وجہ تو ہوگی! کیا آپ میری سفید پوشی کا بھرم توڑنا چاہتے ہیں! یا یہ چاہتے ہیں کہ میں آپ کے سامنے اپنی کم حیثیتی کا اقرار کروں؟ بات پوری طرح اس کی سمجھ میں آگئی، اس نے دوبارہ معذرت کی اور کہا: آئندہ ہر جگہ اس بات کا خیال رکھوں گا،یہ پہلو تو کبھی ذِہْن میں آیا ہی نہ تھا۔
قورمہ سپائسی ہی مزہ دیتا ہے بعض لوگ زَبان سے مشورہ دینے کے بجائے خود اسے نافذ کر دکھاتے ہیں چنانچہ ایک خاتونِ خانہ کچن میں قورمہ بنانے میں مصروف تھی، اتنے میں بیل بجی، جونہی دروازہ کھولا پڑوسن اندر گھسی اور یہ کہتے ہوئے سیدھا کچن میں گئی کہ باجی کیا پکارہی ہیں؟ اس سے پہلے کہ خاتونِ خانہ کوئی جواب دیتی پڑوسن نے خود ہی ڈھکن اٹھا کر دیکھا، تھوڑا سالن نکال کر چکھا پھرآناً فاناً مسالے کا ڈبہ اٹھایا اور چائے کا بڑا چمچ بھر کر ہنڈیا میں ڈال دیا اور کہنے لگی: قورمہ سپائسی (یعنی تیز مسالے والا) ہی مزہ دیتا ہے، پھر یہ جا وہ جا۔ خاتونِ خانہ نے سر پکڑ لیا کیونکہ وہ اپنے شوہر اور بچّوں کی پسند کو جانتی تھی کہ وہ سالن میں ہلکا مسالا پسند کرتے ہیں۔
بِن مانگے مشوروں کی 21 مثالیں جس طرح کسی کاریگر کا ٹُول باکس اس کے ساتھ ساتھ ہوتا ہے اسی طرح بِن مانگے مشورے دینے والے بھی مشوروں کا بیگ اپنے ہمراہ رکھتے ہیں، کسی کام سے ان کا واسطہ یا تجرِبہ ہو یا نہ ہو! اس بارے میں مشورہ دینے سے باز نہیں رہتے بلکہ اس مشورے پر عمل کرنے کے لئے اِصرار بھی کرتے ہیں، مثلاً (1)کسی کو بیمار دیکھا تو جَھٹ سے دوائیوں کے نام تجویز کردئیے (2)کوئی گاڑی خراب دیکھی تو فوراً بونٹ کھول کر آپریشن شُروع کردیتے ہیں اور حکم دیتے ہیں کہ فلاں پُرزہ بدل دو اور کام مزید بگاڑ دیتے ہیں (3)کپڑے کی دُکان پر جائیں گے تو ساتھ والے گاہگ کو تاکید کریں گے کہ آپ فلاں رَنگ لے لیں آپ پر بہت اچّھا لگے گا (4)کسی موٹے شخص کو دیکھا تو مشورہ حاضِر کہ ” کم کھایا کرو“ بھلے اس بے چارے کا جسم کسی بیماری یا دوائی سے پُھولا ہوا ہو، ”تیز تیز واک کیا کرو“ چاہے بے چارے سے آہستہ بھی نہ چلا جاتا ہو(5)دُبلے پتلے کو دیکھیں گے تو مفت مشورہ موجود ”کھایا پیا کرو“ خواہ وہ ڈَٹ کر کھاتا ہو یا کسی بیماری کی وجہ سے پیٹ بھر کر نہ کھاسکتا ہو مگر مشورہ دینے والا یہ معلوم کرنے کی زحمت ہی کب کرتا ہے، اسے تو بس مشورہ دینے سے غرض ہوتی ہے (6)موبائل پرانا ہوگیا ہے اب نیا لے لو (7) گھر کا فرنیچر پرانے ڈیزائن کا ہے تبدیل کرلو (8) اس مرتبہ عیدِ قربان پربڑا جانور (بیل، اُونٹ وغیرہ) لینا (9)بائیک دَھکّا اسٹارٹ ہے نئی لے لو (10)موٹر سائیکل بیچ کر گاڑی لے لو (11) چھوٹی گاڑی بیچ کر بڑی لے لو (12)کوئی بتائے کہ بیٹے کو نوکری مل گئی ہے تو مشورہ حاضر کہ اس کی شادی کردو (13) جہیز میں فلاں فرنیچر دینا (14) اتنے تولے سونے کے زیورات پہنانا (15)جوانی میں ہی حج کرلو بڑھاپے میں کہاں ہمّت!(16)تمہارا بچّہ تین سال کا ہوگیا ابھی تک اسکول داخل نہیں کروایا، کل ہی داخل کروادو (17)گرمی بہت ہے گھر میں اے سی لگوا لو (18)نوکری میں کیا رکھا ہے، اسے چھوڑ کر کاروبار کرلو (19)گھر کے پردے کئی سال پرانے ہیں ان کو تبدیل کرلو (20)گھر کی لائٹیں مدھم ہوگئی ہیں نئی لگوالو (21)ٹی وی کے دور گئے اب ایل سی ڈی لگوالو۔
آخری بات یہ چند مثالیں نشاندہی کے لئے پیش کی ہیں، غور کرنا شُروع کریں تو کئی درجن ”بِن مانگے مشورے“ مزید فہرست میں شامل ہوجائیں گے۔ یاد رہے کہ ہر بِن مانگا مشورہ“ بُرا نہیں ہوتالیکن اس پر اصرار کرنا اسے تکلیف دہ بنا دیتا ہے۔ بہرحال ہمیں خود پر غور کرنا چاہئے کہ کہیں ہم بھی ”بِن مانگے مشورے“ دینے اور اس پر اصرار کرنے والوں میں شامل تو نہیں؟ اگر ایسا ہے تو دوسروں کی نِجی زندگی (Personal Life) کا احتِرام کرنا سیکھئے، اپنے الفاظ اور لہجے میں لچک پیدا کریں تاکہ سامنے والا آزمائش میں نہ پڑے، عین ممکن ہے کہ آپ کا مشورہ تو درست ہو لیکن اس غریب کے پاس اس پر عمل کرنے کے لئے رقم ہی نہ ہو،ایسے میں آپ کا اِصرار اُسے شرمندہ کر دے گا۔ ہر ایک کی ذِہْنی، قلبی اور جسمانی کیفیّات الگ ہوتی ہیں جس کی وجہ سے لوگوں کی پسند ناپسند اور نفع نقصان بھی ایک جیسے نہیں ہوتے، ایک ہی چیز کسی کو ترقّی دے دیتی ہے اور کسی کو زمین پر دے مارتی ہے! شاید آپ کہیں کہ ہم نے مَحبت اور ہمدردی میں مشورہ دیا تو یاد رکھئے کہ نادان دوست سے دانا دشمن بہتر ہوتا ہے، ہر سمجھ دار شخص اپنے بُرے بھلے کو خوب پہچانتا ہے اس کی ہمدردی کسی اور کے ساتھ ہو نہ ہو اپنے ساتھ ضَرور ہوتی ہے، اس لئے ہر ایک کو اس کی زندگی میں دَخل اندازی کا حق نہیں دیا جاسکتا۔ ہاں! ماں باپ، بہن بھائیوں، استاد، مُرشِد اور عالمِ دین کی بات دوسری ہے، یہ بھی احتِیاط کا دامن تھام کر مشورہ دیں۔ یہی ہماری سَماجی زندگی کا حُسن ہے، اسے برقرار رکھئے، آسانیاں پیدا کیجئے اور دوسروں کی زندَگی مشکل نہ بنائیے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں عَقْلِ سلیم نصیب فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭…مدرس مرکزی جامعۃ المدینہ ،عالمی مدنی مرکز فیضان باب المدینہ کراچی
Comments