کسی نے حضرت سیّدُنا
عمر بن عبدالعزیز رحمۃ
اللہ علیہ سے
ان کے گھر والوں کی مَعاشی حالت کے حوالے سے گفتگو کی، تو آپ رحمۃ اللہ علیہنے فرمایا: میں نے
دوسروں کی طرح ان کوبھی مالِ غنیمت سے حصّہ دیا ہے۔ اس نےعرض کی: اتنی سی رقم میں
وہ کیسے گزاراکریں گے؟ کپڑے کہاں سے خریدیں گے اورمہمانوں کی میزبانی کیسےکرسکیں
گے؟ تو ارشاد فرمایا: میں ان کی دنیا بنانے کے لئے اپنی آخرت تباہ نہیں کرسکتا۔(حضرت عمر بن
عبدالعزیز کی 425 حکایات، ص 178)
پیارے اسلامی بھائیو! واقعی دوسروں کو دنیاوی فائدے اور سہولیات پہنچانے کے لئے اپنی آخرت کا نقصان کرلینا نادانی ہے ۔تین فرامینِ مصطَفٰے : نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: (1)قیامت کے دن اللہ پاک کے نزدیک لوگوں میں بدترین دَرَجے والا وہ بندہ ہے جو دوسروں کی دنیا کی خاطر اپنی آخرت برباد کردے۔ (ابن ماجہ،ج 4،ص339، حدیث:3966) (2)کیا میں تمہیں سب سے بَدتَر شخص کے بارے میں نہ بتاؤں ؟ یہ وہ ہے جو خود تو کھائے مگر اپنے مہمان کو کھانے سے روک دے، اکیلا سفر کرے اور اپنے غلام کو مارے۔ کیا میں تمہیں اس سے بھی بَدتَر شخص کے بارے میں نہ بتاؤں؟ یہ وہ ہے جو لوگوں سے بُغْض (دل میں دشمنی) رکھے اور لوگ بھی اس سے بغض رکھیں۔ کیا میں تمہیں اس سے بھی بَدتَر شخص کے بارے میں نہ بتاؤں ؟ یہ وہ ہے جس سے برائی کا خوف ہواور بھلائی کی اُمیدنہ ہو۔ کیا میں تمہیں اس سے بھی بَدتَر شخص کے بارے میں نہ بتاؤں ؟یہ وہ ہے جو دوسرے کی دنیاکے عوض اپنی آخرت بیچ ڈالے۔ کیا میں تمہیں اس سے بھی بدترشخص کے بارے میں نہ بتاؤں؟ یہ وہ ہے جودین کے بدلے دنیا کھائے۔ (تاریخ ابن عساکر،ج51،ص133) (3) قیامت کے دن سب سے زیادہ شرمندگی اس شخص کو ہوگی جس نے دوسرے کی دنیا کے عوض اپنی آخرت کو بیچ دیاہوگا۔ (تاریخ کبیر ،ج5،ص387، حدیث: 1927 /7998) علّامہ عبدالرؤف مناوِی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیثِ پاک کی شرح میں فرماتےہیں: اپنےاُخروی حصے کے بدلے کسی دوسرے کے دُنیوی حصےکو حاصل کرنا اور دوسرے کی دنیا کو اپنی آخرت پر ترجیح دینا سب سے بڑی بےوقوفی ہے، ایسےشخص کو فقہائے کرام نے اَخَسُّ الْاََخِسَّاء (یعنی سب سےزیادہ گھٹیا اور ذلیل حرکت کرنے والا) کہا ہے۔ (فیض القدیر،ج2،ص537،تحت الحدیث:2201) دوسرےکی دنیا آباد اور اپنی آخرت برباد کرنے والے 13معاملات کی نشاندہی (1)اپنے دُنْیَوی لیڈر کی حِمایت میں اس کے مخالفین کو نقصان پہنچانا، ان سے لڑائی جھگڑے کرنا حتّٰی کہ قتل کے جرم کا ارتکاب کرنا (2)کسی شخص کو کوئی عُہدہ و منصب دلوانے کے لئے افسر یا سیٹھ وغیرہ کے سامنےاس شخص کی جھوٹی خوبیاں بیان کرنا (3)ملازمین کی بَھرتی کےدوران ادارے کے قوانین کو نظر انداز کرکے محض رشتہ داری یا دوستی وغیرہ کی بِنا پر نااہل اَفراد کو نوکری پر رکھ لینا (4)غیر حاضر ملازم کی جھوٹی حاضری لگادینا (5)اپنےسیٹھ کےخراب اورعیب والے مال کو بِکوانے کے لئے گاہک کے سامنے جھوٹ بولنا اور دھوکا دینا (6)مالک کے کہنے پرپیٹرول اورسی این جی پمپ پرملازمین کا پیسے پورے لینا لیکن پیٹرول اورسی این جی کم ڈالنا (7)کسی کے ظلم و غَصْبْ کو جانتے ہوئے بھی وکیل کا جج کے سامنے اُسے بے قصور ثابت کرنا (8)کسی کے حق میں جھوٹی گواہی دینا (9)چوری، ڈکیتی، زمینوں پر ناحق قبضے جمانےوالوں کی پُشت پَناہی کرنا (10)اپنے خاندان، قوم و برادری کے لوگوں کے باطل پر ہونے کو جانتے ہوئے لڑائی جھگڑوں اور پنچایتوں میں ان کاساتھ دینا (11)لوگوں کوجعلی ڈگریاں بنوا کردینا (12)اہل و عیال کے اخراجات پورے کرنے کا بہانہ بنا کرحرام کمائی کرنا (13)امتحان میں پاس کروانے کے لئے کسی کو نقل کروانا۔ معاشرے میں پائے جانے والے ان چند معاملات میں کہیں ڈائریکٹ اور کہیں اِن ڈائریکٹ دوسرے کی دنیا سنوارنے کے بدلے میں اپنی آخرت کو برباد کرنا پایا جارہا ہے۔ اللہ کریم ہمیں ایسے کام کرنے سے بچائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭۔۔۔ماہنامہ فیضانِ
مدینہ،باب المدینہ کراچی
Comments