ہمارے
معاشرے میں رَہن سَہن کے حوالے سے مختلف لوگ 4 قسم کے لائف اسٹائل کے تحت زندگی
گزارتے ہیں، ان میں سے پہلی قسم اُن لوگوں کی ہے جن کو بنیادی ضروریاتِ
زندگی بھی مُیَسَّر (Available) نہیں
ہوتیں، یہ میلے کچیلے کپڑے پہننے،بچا کھچاکھاناکھانے،
فُٹ پاتھ وغیرہ پر کُھلے آسمان تَلے یا جھونپڑیوں میں رات بسر کرنے پر مجبور ہوتے
ہیں، چھوٹا موٹا کام کرکے یا بھیک مانگ کر تھوڑا بہت کما بھی لیتے ہیں لیکن غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارتے ہیں، بیمار ہوجائیں
تو دوائی لینے کی سَکت نہیں رکھتے، بارش میں کسی پُل وغیرہ کے نیچے پناہ لیتے ہیں۔ دوسری قسم اُن سفید پوش لوگوں کی ہے جنہیں بدن چھپانے کے لئے کپڑے، پیٹ کی بھوک مٹانے کے لئے کھانا
اور رہنے کے لئے کرائے کے مکان جیسی
بنیادی ضروریات حاصل ہوتی ہیں، اس طرح کے لوگ جتنا کماتے ہیں وہ جسم اور
روح کا رشتہ قائم رکھنے میں خرچ ہوجاتا ہے۔ تیسری قسم خوشحال لوگوں کی ہے جنہیں ذاتی مکان،
اپنی سُواری،مناسب مقدار میں
سامان ِزندگی اور اچھا کھانے اچھا پہننے جیسی کئی سہولیات فراہم ہوتی
ہیں، یہ اپنی کمائی میں سے کچھ نہ کچھ جمع بھی کرتے رہتے ہیں اور دھیرے دھیرے
سہولیاتِ زندگی بڑھاتے جاتے ہیں۔ چوتھی قسم امیر اور مالدار لوگوں
کی ہے جو پُرتَعَیُّش (Luxurious) زندگی گزارتے ہیں،
بڑی بڑی کوٹھیاں، عالیشان بنگلے ان کا مَسْکَن (Residence) ہوتے ہیں جہاں عیش و عِشرت کا سامان وافر ہوتا
ہے، قیمتی لباس، مہنگے زیور، طرح طرح کے مزیدار کھانے،ائیر کنڈیشنڈ کمرے، بڑی بڑی
گاڑیاں، ڈرائیور،نوکر چاکر اور پروٹوکول ان کی زندگی کا حصہ ہوتا ہے۔ گھر کو
دیکھ کر روپڑے تابعی بزرگ حضرتِ سَیِّدُنا ابنِ مُطِیع علیہ رَحْمۃُ السَّمِیع نے ایک دن اپنے بارونق گھر کو دیکھا تو خوش
ہوگئے مگر پھر فوراً رونا شروع کردیا اور
فرمایا:”اے خوبصورت مکان! اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم! اگر موت نہ ہوتی تو میں تجھ سے خوش ہوتا اور اگر آخِرِکار تنگ قبر میں نہ جانا ہوتا تو دنیا اور اس کی رَنگینیوں سے میری آنکھیں ٹھنڈی ہوتیں۔“یہ
فرمانے کے بعد اِس قَدَر روئے کہ
ہچکیاں بندھ گئیں۔(موسوعۃ ابن ابی الدنیا، کتاب قصر الامل،ج 3،ص362،
رقم: 272) میرے
نوجوان اسلامی بھائیو! آپ نے دیکھا کہ عمدہ مکان کے ہوتے ہوئے
بھی ہمارے بزرگانِ دین فکرِ آخرت سے غافل نہیں ہوا کرتے تھے! جبکہ آج کا نوجوان دوسروں کودیکھ دیکھ کر اپنا لائف اسٹائل پلک جھپکتے میں اَپ گریڈ کرنا چاہتا ہے لیکن فکرِ آخرت سے غافل دکھائی دیتا ہے۔ حساب انہی سے ہوگا کسی
کا عمدہ رَہَن سَہَن دیکھ کر دل چھوٹا نہیں کرنا چاہئے، اس حوالے سے ہمارے بزرگوں
کا کیسا مدنی ذہن ہوتا تھا! اس روایت میں دیکھئے چنانچہ حضرت سیّدنا ابودرداء رضی اللہ تعالٰی عنہ فرمایا کرتے: مالدار بھی کھاتے ہیں اور
ہم بھی، وہ بھی پیتے ہیں اور ہم بھی، وہ بھی لباس پہنتے ہیں اور ہم بھی، ان کے پاس
بہت سارا مال ہوتا ہے جس کی طرف وہ بھی دیکھتے رہتے ہیں اور ہم بھی، مگر ان کے مال
کا حساب صرف انہی سے ہوگا اور ہم اس سے آزاد رہیں گے۔ (الزھد لابن مبارک، ص 210، رقم:592) نقصان کا ایک پہلو عیش و عشرت کی زندگی
بَسر کرنے کی خواہش کا ایک نقصان یہ بھی ہوگا آپ اپنے موجودہ لائف اسٹائل سے عدمِ
اطمینان کا شکار ہوجائیں گے جس کے نتیجے میں زندگی بے رونق لگنے لگے گی کیونکہ آپ جو چاہتے ہیں وہ مِلا نہیں اور جو مِلا
وہ اچّھا نہیں لگتا تو چین کہاں ملے گا! کسی کی رِیس نہ کیجئے کسی کی رِیس، نقل یا کاپی نہ کیجئے کہ
فلاں کے پاس ایسی سواری ہے تو میں بھی ایسی لوں گا، فلاں کے پاس ایسی گھڑی، لباس
اور جوتے ہیں میں بھی ویسے ہی لوں گا بلکہ وہ چیز لیجئے جس کی آپ کو ضرورت ہے جس
میں آپ کا اپنا اطمینان ہو، بالفرض اگر کوئی پہاڑ سے چھلانگ لگا دے تو اس کی دیکھا
دیکھی کیا آپ بھی چھلانگ لگائیں گے؟ یقیناً نہیں تو یہی اصول اپنی عملی زندگی میں
بھی نافذ (Implement)
کرلیجئےاور ”چادر دیکھ کر پاؤں پھیلائیے“۔ ٹھنڈے لوہے پر ضربیں نہ لگائیے دنیاوی خواہشات کے ہی پیچھے بھاگ کر اپنی توانائیاں اور وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے۔ ایک بزرگ رحمۃ
اللہ تعالٰی علیہ نے ایک دنیا
دار شخص کو نصیحت آموز خط لکھا: مجھے بتائیے کہ آپ دنیا کے کاموں میں اَن تھک
محنت کرتے اور دنیا ہی کے کاموں کا لالچ کرتے ہیں، کیا آپ کو دنیا میں وہ چیز ملی
جو آپ چاہتے تھے؟ اور کیا آپ کی ساری تمنائیں پوری ہوگئیں؟ اس شخص نے جواب دیا:
نہیں! بزرگ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے فرمایا: اب دیکھ لیجئے جس کے آپ اس قدر حریص
ہیں وہ آپ کو نہیں مل سکی! تو آخرت جس کی طرف آپ کی توجہ ہی نہیں، اس کی نعمتیں
کیسے حاصل کرسکیں گے! میرے خیال میں آپ صرف ٹھنڈے
لوہے پر ضرب لگا رہے ہیں۔(قوت القلوب،ج 1،ص178) حرام کمانے کا سوچیں بھی مت یاد رہے
کہ ترقی کی خواہش اور اس کے لئے کوشش بُری بات
نہیں جبکہ جائز طریقے پر ہواور انسان اپنی آخِرت سنوارنے کی بھی فکر کرے، لیکن
اگر شیطان آپ کے دل میں رشوت، چوری، فراڈ، سود، زمینوں پر قبضہ کرکے پیسہ کمانے
اور عیش کرنے کا وسوسہ ڈالے توفوراً لاحول شریف پڑھ لیجئے اور اپنے رب کی رضا پر راضی رہئے۔ رب کی عطا پر راضی رہنے کا فائدہ حضور نبیِّ اکرم، شفیعِ مُکرّم، شہنشاہِ عالَم، رسولِ مُعظّم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: قَدْ اَفْلَحَ مَنْ
اَسْلَمَ وَرُزِقَ کَفَافًا وَقَنَّعَہُ اللّٰہُ بِمَا اٰتَاہُ یعنی وہ کامیا ب ہوگیا جو
مسلمان ہوا اور بقَدَرِ کِفایت رِزق دیا گیا
اور اللہ تعالیٰ
نے اسے دیئے ہوئے پر قَناعَت دی۔ (مسلم، ص 406، حدیث: 2426) حکیمُ الْاُمَّت حضرتِ مفتی
احمد یار خان علیہ رحمۃ الحنَّان اِس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے
ہیں:یعنی جسے ایمان و تقویٰ بقَدَرِ ضَرورت مال اور تھوڑے مال پر صَبْر، یہ چار
نعمتیں مل
گئیں، اُس پر اللہ کا بڑا ہی کَرَم وفَضل
ہوگیا۔ وہ کامیاب رہا اور دنیا سے کامیاب گیا۔(مراٰۃ المناجیح،ج 7،ص9) خوش نصیب وہ ہے جو اپنے نصیب پر خوش ہے ایک بُزرگ جو مستجابُ الدعوات تھے (یعنی ان کی دعائیں قبول
ہوتی تھیں) ان کی خدمت میں ایک
شخص آیا اور اپنی تنگ دستی کا رونا روتے ہوئے
کہنے لگا: حضرت! میرے گھر میں چار آدمی کھانے والے ہیں اور میری آمدْنی
صِرْف پانچ ہزار روپے ماہانہ ہے جس سے میرے اَخراجات پورے نہیں ہوتے، آپ میرے حق
میں دعا کیجئے کہ میری آمدْنی میں کچھ اضافہ ہوجائے۔ انہوں نے دُعا کردی۔ پھر ایک
دکاندار آیا اور عَرْض کی: حضور! میرے یہاں چار آدمی کھانے والے ہیں جبکہ کمانے
والا میں اکیلا ہوں، مجھے دس ہزار روپے مہینے کے ملتے ہیں، میرا خرچ پورا نہیں
ہوتا، آمدنی میں اِضافے کی دُعا کردیجئے۔ جب وہ چلا گیا تو ایک تاجر آیا اور
اِلتجا کی: حضرت! میرا کُنبہ چار افراد پر مشتمل ہے اور میری ماہانہ آمدنی فقط
پچاس ہزارہے، خرچہ پورا نہیں ہوتا میرے لئے دعا کیجئے۔ وہ حاضِرین سے فرمانے لگے:
لگتا ایسا ہے کہ ہم میں سے کوئی اپنی قسمت پر راضی نہیں اگرچہ اس کو دوسرے سے
زیادہ ملتا ہے، اگر انسان خود کو دنیا میں خوش اور عاقبت میں سَرفراز رکھنا چاہتا
ہے تواس پر لازِم ہے کہ جو کچھ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اسے دیا ہے اس پر قناعت کرے اور صَبْر و
شکر کرتا رہے کہ اس کی بَرکت سے مالکِ کَریم عَزَّوَجَلَّ اس کو زیادہ دے گا۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭…مدرس مرکزی جامعۃ المدینہ،عالمی
مدنی مرکز فیضان مدینہ ،باب المدینہ کراچی
Comments