آج جوتوں پر پالش ٹھیک سے نہیں ہوئی تھی، یہ دیکھ کر شوہر کا موڈ خراب ہوگیا، بیوی سے کہنے لگا: اِتنا سا کام بھی ڈھنگ سے نہیں کرسکتیں، آخر تم سارا دن کرتی کیا ہو! پھرآفس روانہ ہو گیا۔ شام پانچ بجے جب وہ تھکا ہارا گھر پہنچا تو دیکھاکہ اس کے بچے گھر کے سامنے میلے کچیلے کپڑوں میں کھیل رہے ہیں، گھر میں داخل ہوا تو عجیب منظر تھا، کپڑے، کھلونےاور جوتے اِدھر اُدھربکھرے پڑے تھے، ناشتے کے برتن ابھی تک وہیں تھے جہاں صبح تھے، رات کے برتن سِنک (Sink) میں پڑے دُھلنے کا انتظار کررہے تھے، فریج کے دروازے پر آلودہ ہاتھوں کے نشانات تھے، گھر کے فرش پر جھاڑو نہ لگنے کی وجہ سے گَرد (Dust)تھی،یہ منظر دیکھ کر شوہر کو گھبراہٹ سی ہونے لگی اور وہ دل ہی دل میں دعا مانگنے لگا: ”یااللہخیر!“ تیزی سے سیڑھیاں چڑھ کر ہانپتے کانپتے جب وہ بیڈ روم میں پہنچا تو دیکھا کہ اس کی بیوی بستر پر بیٹھی کوئی کتاب پڑھ رہی تھی، آہٹ پا کرکتاب رکھی اور شوہر کے استقبال کے لئے مُسکراتی ہوئی اُٹھ کھڑی ہوئی، شوہر نے فوراً پوچھا: میں تو ڈر ہی گیا تھا،آج گھر کی کیا حالت بنارکھی ہے! سب کچھ دَرہم بَرہم ہے ؟ بیوی نے نرمی سے جواب دیا: آپ ہی نے تو کہا تھا کہ آخر میں سارا دن کرتی کیا ہوں؟ تو میں نے سوچا کہ آج میں کچھ نہیں کروں گی،تاکہ آپ کو اپنے سوال کا جواب مل جائے۔
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!ہماری راحتوں اور آسائشوں میں دوسروں کا کتنا کردار ہوتا ہے اس فرضی حکایت سے بخوبی سمجھاجاسکتاہے۔زندگی کی گاڑی مشترکہ کاوشوں (Mutual Efforts) کے پہیوں پر چلتی ہے مگر ہمیں اس کا اِدراک نہیں ہوتا مثلاًخاکروب (Swapper)، چوکیدار، ڈرائیور، گھر میں کام کرنے والی ماسی، بیٹا بیٹی، ماں باپ، بہن بھائی،بجلی گیس کے محکموں کے لوگ ہماری زندگی کی ضروریات پوری کرتے ہیں،ہمیں سہولیات فراہم کرتے ہیں۔ بالفرض ایک ہفتے گلی میں صفائی کرنے والا نہ آئے تو صفائی کاکیا حال ہوگا!اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں۔ نعمت کی قدر اس کے جانے کے بعد ہوتی ہے، اس لئے ہمیں اپنی زندگی میں شامل لوگوں کی نہ صرف قدر کرنی چاہئے بلکہ وقتاً فوقتاً حوصلہ افزائی کرکے انہیں قدر دانی کا احساس بھی دلانا چاہئے۔ ”امی! آپ کتنی اچھی ہیں کہ اپنی راتوں کی نیند اور دن کا چین قربان کرکے ہم بہن بھائیوں کے کھانے پینے، کپڑوں اور دیگر ضروریات کا خیال رکھتی ہیں“،”ابو! آپ خون پسینہ ایک کرکے ہم بہن بھائیوں کے اخراجات پورے کرتے ہیں، مجھے آپ سے محبت ہے (I love you!)“اس طرح کے جملے (جبکہ سچے ہوں)بولنے سے آپ کا جائے گا کچھ نہیں لیکن سامنے والے کا دل بڑا ہوجائے گا، کبھی آزما کر دیکھئے!
ناقدری کا رونا یہ بھی کڑوی حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے میں عام طور پرشوہر بیوی سے اور بیوی اپنے شوہر سے ناقدری کی شاکی (Complainer)ہے، اسی طرح ماں باپ اور اولاد، ساس اور بہو، استاذ اور شاگرد، سیٹھ اور ملازم، دکاندار اور خریدار! اپنی اپنی ناقدری ( In appreciation) کا رونا روتے ہیں، الغرض کریڈٹ لینے کو سب تیار ہیں، دینا کسی کسی کو آتا ہے۔اپنی ناقدری کا احساس بعض اوقات اتنا بڑھ جاتا ہےکہ انسان کو اپنی ناک سے آگے دکھائی ہی نہیں دیتا اور وہ گھریلو، کاروباری یا تعلیمی سطح(Level) پر مفید کردار ادا کرنے میں ناکام رہتا ہے! یاد رکھئے اگر آپ میں صلاحیت(Ability) ہے تو آج یا کل اس کے قدر دان ضرور ملیں گے کیونکہ سو کا نوٹ نیا ہو یا پرانا! کَڑک ہویا مُڑا تُڑا!اس کی ویلیو سوروپے ہی رہتی ہے کم یا زیادہ نہیں ہوجاتی،اور اگر آپ میں کسی چیز کی صلاحیت نہیں ہے تو خوش فہمی کے اثرات سے باہر آجائیے کہ گرد آسمان پر بھی چڑھ جائے اس کی قیمت نہیں بڑھتی اور سونا زمین میں بھی دفن ہوجائے تو اس کی قدر کم نہیں ہوتی۔ چنانچہ ”میری قدر کرو، میری اہمیت کو سمجھو“ کی تکرار کرکے ”اپنے منہ میاں مٹھو بننے“ کے بجائے آس پاس نظر دوڑائیے اور دوسروں کی قدر کرنا شروع کردیجئے، لوگ بھی آپ کی قدر کرنے لگیں گے، مگر نیت صاف ہونا شرط ہے۔
کاش! ہم ان جیسے ہوتے 2دوست جن کی مالی حالت درمیانی تھی،آفس کے کسی فنکشن میں شرکت کے لئے فائیو اسٹار ہوٹل پہنچے تو وہاں پر لوگوں کو عیش کرتے دیکھ کر ایک دوست بولا: ہم ان جیسے کیوں نہیں! دوسرا دوست تھوڑا سمجھدار تھا، وہ فنکشن کے بعد اسے قریب ہی واقع معذور لوگوں کے سینٹر میں لے گیا،وہاں کسی کا ہاتھ نہیں تھا تو کسی کی ٹانگ نہیں تھی، کوئی بولنے سے معذور تھا تو کوئی سننے سے محروم اور کسی کو دکھائی نہیں دیتا تھا، وہاں اس نے اپنے دوست سے کہا: خدا کا شکر کرو کہ تم ان جیسے نہیں ہو۔
نیچے والوں کو دیکھو اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:اپنے سے نیچے والوں کودیکھو، اوپر والوں کو نہ دیکھوپس تمہارے لئے یہی بہتر ہے کہ کہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نعمتوں کوخود سے دور نہ کر بیٹھو۔(معجم اوسط،ج 2،ص18، حدیث:2343)
چند سوالات کبھی خود سے پوچھئے کہ کتنے لوگ تمنا کرتے ہوں گے کہ انہیں بھی ایسا گھر، گاڑی، موبائل وغیرہ مل جائے جیسا آپ کے پاس ہے، ایسی ملازمت، اُجرت، تجارت، صحت، عزت اور صحبت مل جائے جیسی آپ کے پاس ہے! اس طرح کے سوالات سے آپ کے دل میں اپنی چیزوں کی قدر محسوس ہونے لگے گی، اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ۔نعمتوں کی قدردانی کا مزید ذہن بنانے کے لئے یہ حکایت پڑھئے:
اگر تمہیں گدھا بنادیا جاتا! ایک آدمی چلتے چلتے بہت تھک گیا اور راستے میں بیٹھ کر رونے لگا کہ مجھ سے بڑھ کر کون مسکین ہو گا جس کے پاس سواری بھی نہیں۔ ایک دانا نے سن کر کہا: نادان! کیوں ناقدری کرتا ہے! ٹھیک ہے تیرے پاس سواری نہیں لیکن شکر کر اللہ پاک نے تجھے گدھا بھی تو نہیں بنایا کہ لوگ تجھ پر سواری بھی کریں اور اپنا سامان بھی لادیں ۔
بہرحال ہمیں چاہئے کہ ہم رشتوں، نعمتوں، مشوروں، تجربوں، علم، وقت، روزگار کی قدر کرنا سیکھیں اور شکرگزار بندوں میں شمار ہوجائیں۔اللہ پاک ہمارا حامی وناصر ہو۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭…مُدرّس مرکزی جامعۃالمدینہ،عالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ ،باب المدینہ کراچی
Comments