تاریخ کے اوراق
غزوۂ خندق (مع اسباب و اثرات)دوسری اور آخری قسط
*مولانا بلال حسین عطّاری مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ جون 2024ء
گذشتہ سے پیوستہ
بنو قریظہ کا احتساب(غزوۂ بنو قریظہ)
شہر مدینہ کے کامیاب دفاع کے بعد یہ اتحادی فوج تو شکست کھاکر چلی گئی مگر اب باری تھی معاہدہ کا پاس نہ رکھنے والے یہودی قبیلے ”بنوقریظہ“ کی جنہوں نے حالتِ جنگ میں معاہدے سے روگردانی کی، لہٰذا جنگ خندق سے فارغ ہوکر پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اعلان فرمایا کہ لوگ ابھی ہتھیار نہ اتاریں اور بنو قریظہ کی طرف روانہ ہو جائیں، حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ان کے قلعوں کا محاصرہ فرما لیا جو کہ 25 دن تک جاری رہا، بالآخر بنو قریظہ کی لڑاکا فوجوں کو ان کے سرداروں (یعنی اس اتحادی فوج کے مرکزی کردار حُیی بن اخطب اور معاہدۂ مدینہ کی خلاف ورزی کرنے والے کعب بن اسد) سمیت قتل کرکے گڑھوں میں ڈال دیا گیا، یوں مدینۂ منورہ کی پاک سرزمین سے ان فتنہ پرور یہودیوں کا خاتمہ ہوا۔ ([1])
مشرکین و یہود کی شکست کے اسباب
اس جنگ کے مطالعہ سے سامنے آتا ہے کہ بنیادی طور پر اس اتحادی فوج کی شکست کی تین وجوہات ہیں:
(1) سخت آندھی: جس کے متعلق ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
( یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ اِذْ جَآءَتْكُمْ جُنُوْدٌ فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ رِیْحًا وَّ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْهَاؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرًاۚ(۹))
ترجَمۂ کنز الایمان: اے ایمان والو!اللہ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو جب تم پر کچھ لشکر آئے تو ہم نے اُن پر آندھی اور وہ لشکر بھیجے جو تمہیں نظر نہ آئے اور اللہ تمہارے کام دیکھتا ہے۔([2])
نوٹ: فرشتوں نے اس جنگ میں کُفّار کو لرزا دیا اور ان کے دلوں میں دہشت ڈال دی مگر قتال نہیں کیا۔([3])
(2)ریاستِ مدینہ کی غیر روایتی جنگی تدبیر (Battle Strategy): خندق دفاع کی ایک فارسی جنگی چال تھی جو کہ عرب کے قبائلیوں کے لئے ایک غیر روایتی اور غیر معمولی حربہ تھا کہ عرب نے ابھی تک روم و فارس کے خونریز معرکے نہیں دیکھے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اس کے لئے کسی بھی طرح تیار نہیں تھے، تو اچانک سے سامنے آجانے والی اس رکاوٹ نے ان کو ناکوں چنے چبوائے۔ ([4])
(3)حضرت نعیم بن مسعود کا اس لشکر کو تحفہ : حضرت نعیم بن مسعود اشجعی رضی اللہُ عنہ قبیلۂ بنو غطفان کے بہت ہی معزز سردار تھے اور قریش و یہود دونوں کو ان کی ذات پر پورا پورا اعتماد تھا، یہ بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوکر اسلام قبول کرچکے تھے لیکن کفار کو ان کے اسلام کا علم نہ تھا، کفارو یہود کی فوج میں پھوٹ ڈالنے کے لئے آپ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اجازت سے پہلے یہودیوں کے پاس گئے ان کو کفار قریش و بنو غطفان سے ان کے کچھ معزز لوگوں کو بطور Surety کے طلب کرنے کا کہا کہ آپ لوگوں کو تو مدینے میں ہی رہنا ہے، مشرکین کا کیا بھروسا یہ کب پیٹھ پھیر جائیں، یہ لوگ مدینہ کے مقامی تھوڑی ہیں یہ تو باہر (یعنی مکے) سے آئے ہیں۔ اگر یہ بیچ میں پھنساکر واپس چلے گئے تو بعد میں تم محمد(صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) کا مقابلہ کیسے کروگے؟
یہودیوں کو دانہ ڈال کر قریش وبنو غطفان کے پاس آئے اور انہیں کہا کہ یہودی محمد(صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) سے دغا کرنے پر اب پچھتا رہے ہیں حتی کہ انہوں نے محمد سے خفیہ معاہدہ کرلیا ہے کہ آپ سے کچھ معززین کا مطالبہ کرکے انہیں مارنے کے لئے محمد (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) کے حوالے کریں گے ۔ لہٰذا ان کے جال میں آکر اپنی معزز شخصیات یہودیوں کو مت دے بیٹھنا!! بس پھر کیا، آگے چل کر بنوقریظہ نے جب حضرت نعیم کی بات پر عمل کیا تو اس لشکر کا آپسی اعتماد چُور چُور ہوگیا اور یہ ایک دوسرے کو غداری کا مرتکب ٹھہرانے لگے، یوں حضرت نعیم رضی اللہُ عنہ کی بدولت اس لشکر میں پھوٹ پڑگئی اور ان کے اتحاد کی دشوار گرہیں کھل کے رَہ گئیں۔([5])
یاد رہے! جنگ میں دشمن کو دھوکا دینے کے لئے جھوٹ بولنا جائز ہے جیساکہ فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے اَلْحَرْبُ خَدْعَةٌ یعنی جنگ کہتے ہی دھوکا دینے اور چال چلنے کو ہیں۔([6])
جنگِ خندق کی چند مزید اہم جھلکیاں(Highlights)
(1)معجزات کا ظہور:اس جنگ میں پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے کئی معجزات کا ظہور ہوا: (۱)حضرت جابر کی دعوت پر موجود ایک بکری کا بچہ اور ایک صاع جَو اس فوج نے سیر ہوکر کھایا جس کے بعد بھی کھانا اتنا ہی موجود تھا جتنا پہلے تھا۔ ([7]) (۲)اسی طرح حضرت بشیر بن سعد رضی اللہُ عنہ کی بچی اپنے والد اور ماموں حضرت عبد اللہ بن رواحہ کے ناشتہ کے لئے کچھ کھجوریں لائی،آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ان کھجوروں کو اپنے دستِ مبارک میں لے کر ایک کپڑے پر بکھیر دیا اور اہلِ خندق کو کھانے کے لئے بلوایا، سب نے سیر ہو کر ان کھجوروں کو کھایا، جس کے بعد بھی کھجوریں کپڑے کے کناروں سے گر رہی تھیں۔([8]) (۳)خَنْدَق کی کُھدائی کے دوران ایک سخت چَٹان نمودار ہوئی جو صحابۂ کرام علیہمُ الرّضوان سے نہ ٹوٹ سکی،نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے دستِ مبارک سے کُدال مارا تو وہ چٹان ریت کے بھربھرے ٹیلے کی طرح بکھر گئی۔([9]) (۴) خندق کی دیوار سے ٹکراکر حضرت علی بن حکم رضی اللہُ عنہ کی پنڈلی ٹوٹ گئی، نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنا دستِ کرم اُن کی پنڈلی پر پھیراجس سے ان کی پنڈلی بالکل ٹھیک ہوگئی۔([10]) (۵)نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جنگی مصروفیات کے باعث نمازِ عصر نہ پڑھ سکے یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا، تو اللہ پاک نے سورج کو واپس لوٹادیا اور آپ نے نمازِ عصر ادا فرمائی۔([11])
(2)شعار (Military Password): جنگی حالت میں خاص طور پر جب شب خون مارا جائےتو اپنے پرائے کی تمییز بہت ضروری ہوتی تھی کہ کہیں کوئی اپنا ہی غلطی سے نہ مارا جائے، مزید یہ کہ اس طرح کی پیچیدہ صورتحال سے دشمن فائدہ اٹھاسکتا ہے، تو کسی بھی ممکنہ خطرہ سے بچنے کیلئے مختلف الفاظ مقرر کئے جاتے تھے۔ جنگِ خندق کے موقع پر شب خون مارے جانے کی صورت میں مہاجرین کا شعار یَا خَیْلَ اﷲ اور انصار کا شعار حٰمٓ لَایُنْصَرون تھا۔([12])
(3) علم بردار صحابہ: اس جنگ میں مہاجرین کا جھنڈا حضرت زید بن حارثہ رضی اللہُ عنہ کے ہاتھ میں تھا جبکہ انصار کا علمبردار حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہُ عنہ کو بنایا گیا تھا۔([13])
(4)انصار کا ایمانی جوش و خروش: جنگ کی سنگینی کے پیشِ نظر رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اوس و خزرج کے سرداران حضرت سعد بن معاذ و حضرت سعد بن عُبادہ رضی اللہُ عنہما سے مشورہ فرمایا کہ قبیلۂ بنوغطفان سے اس شرط پر معاہدہ کر لیں کہ وہ مدینہ کی ایک تہائی پیداوار لے لیا کریں اور کفارِ مکہ کا ساتھ چھوڑ دیں، یہ سُن کر ان دونوں نے بدر کی طرح ایمانی شجاعت کا مظاہرہ کیا اور عرض کی: یارسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! جب ہم کفر کی حالت میں تھے یہ تب ہم سے ایک کھجور نہ لے سکے، اب تو ہم اہلِ ایمان اور آپ کے غلام ہیں، لہٰذا اس معاہدہ کی کوئی ضرورت نہیں، ایک چیز جو ہم انہیں دے سکتے ہیں وہ صرف ہماری تلوار ہے۔([14])
(5)جاسوسی کا پُر خطر فریضہ: پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس جنگ میں کفار کی خبریں لانے کے لئےحضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہُ عنہ کو بھیجا۔ یہ انتہائی سخت سردی میں ہتھیار لگا کر روانہ ہوگئے، وہاں تیز ہوا چل رہی تھی، سنگریزے اُڑ اُڑ کر لوگوں کو لگ رہے تھے اور آنکھوں میں گرد پڑرہی تھی، امیرِ لشکر نے جاسوسوں کا خطرہ بھانپ کر اعلان کیا: جاسوسوں سے ہوشیار رہنا! ہر شخص اپنے برابر والے کو دیکھ لے۔ یہ اعلان ہونے کے بعد ہر ایک شخص نے اپنے برابر والے کو ٹٹولنا شروع کر دیا۔حضرت حذیفہ بن یمان نے انتہائی ذہانت اور حاضر دماغی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے دائیں طرف موجود شخص کا ہاتھ پکڑ کر پوچھا :تو کون ہے؟ اُس نے کہا: میں فلاں بن فلاں ہوں ۔([15])
(6)منافقین کی حرکتیں: منافقین نے حسبِ سابق اس جنگ میں بھی مسلمانوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، مثلاً (۱)یہ لوگ خندق کی کھدائی میں سستی اور کام چوری کرتے رہتےاور بغیر بتائے چپکے سے اپنے گھروں کو بھاگ جاتے۔([16]) (۲)جب اس بات کی تصدیق ہوئی کہ بنوقریظہ والے بھی دشمنوں کی صف میں کھڑے ہوگئے ہیں تو خوف و ہرا س پھیلنے لگا اور اس سنگین صورتِ حال میں یہ لوگ عوام کے اندر جلی کٹی باتیں کررہے تھے کہ محمد (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم)نے تو ہم سے وعدہ کیا تھا کہ ہم قیصر و کسریٰ کے خزانوں کے مالک ہوں گے، جبکہ یہاں تو حالت یہ ہے کہ ہم میں سے کوئی قضائے حاجت تک کے لئے بھی اطمینان سے نہیں جاسکتا۔(نَعُوذُ بِاللہ!)([17]) (۳)جب کفار کا لشکر حملہ آور ہوا تو اس لشکر کو دیکھتے ہی بزدلی کا نشان بن گئے؛ کچھ منافقین حوصلہ شکن باتیں کرنے لگے اور کچھ بہانے بناکر اپنے گھر لوٹ جانے کی اجازت مانگنے لگے۔([18])
جنگِ خندق کے اثرات
کفارِ قریش اور یہودیوں کی یہ ایسی اتحادی یلغار تھی جس میں ناکامی کے بعد ان کے حوصلے پست ہوگئے، اور ریاستِ مدینہ کا سکہ کفار و مشرکین کے دل پر ایسا جما کہ دوبارہ اس طرح منہ اٹھاکر مدینۂ منورہ پر حملہ کرنے کی جسارت نہیں کرسکے۔ یوں یہ مسلمانوں کی آخری دفاعی جنگ ثابت ہوئی جیساکہ پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: کہ اب ہم ان پر حملہ کریں گے وہ نہیں، اور ہم ان کی طرف چل کر فوج کشی کریں گے۔([19])
جزیرہ نما کے اس خطے کی سیاسی صورتِ حال دیکھیں تو ریاستِ مدینہ کے لئے دو طرف سے محاذ کھلے ہوئے تھے ، ایک مدینہ میں چھپ کر سازشیں کرنے والے یہودیوں کی طرف سے اور دوسرا موقع کی تلاش میں بیٹھے مکے کے مشرکین کی طرف سے جو بدر وغیرہ کے انتقام کے لئے بےتاب رہتے تھے؛ اس فتح کی بدولت مدینے سے فتنہ باز یہودیوں کا انخلا مکمل ہوا، ([20])پیٹھ پیچھے سازشیں کرنے والوں سے جان چھوٹی اور آگے چل کر دُور اندیشی کا شاہکار صلح حدیبیہ کا معاہدہ ہوا جس کی بدولت مشرکینِ مکہ کے حملوں سے چین ملا۔ جب دونوں محاذوں سے خطرات ٹَلے اور پرامن فضا قائم ہوئی تو اب دعوتِ اسلام کے لئے وسیع اور بہترین مواقع میسر آئے، اسلام کی دعوت کا باغ پھلنے پھولنے لگا، باہر ریاستوں میں پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سفیر پیغام اسلام لےکر جانے لگے اور وفود کی آمد و رفت کا دائرہ وسیع ہوتا گیاالغرض یہ ریاست اس فتح کے بعد دن دونی رات چوگنی ترقی کرتی چلی گئی؛ معاہدہ حدیبیہ، وفود کی آمد و رفت اور مختلف غزوات و سرایا سے ہوتے ہوئے اس ریاست نے فتحِ مکہ کا سنگ میل بھی عبور کیا۔ اور پھر وہ وقت بھی آیا کہ عرب کے مشرکین یا یہودی تو کیا بلکہ ہاہر سے آنے والی قیصر روم کی افواج بھی اس ریاست کے سامنے نہیں ٹک سکیں۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ شعبہ ماہنامہ فیضانِ مدینہ کراچی
([20])مدینے میں یہودیوں کے تین بڑے قبائل آباد تھے: (۱)بنوقینقاع (2)بنو نضیر (3) بنو قریظۃ۔ یہ تینوں ہی بڑے بدعہد و بدباطن تھے۔بنو قینقاع کو 2 ہجری میں ایک خاتون کی حرمت پامال کرنے پر مدینہ سے نکالا گیا، بنو نضیر کو 4ہجری میں عہد شکنی کرنے پر جلاوطن کیا گیا اور بنو قریظہ کو ابھی خندق کے فوراً بعد، اس طرح مدینہ منورہ کی مقدس سرزمین سے یہودیوں کا خاتمہ ہوا۔
Comments