
تاریخ کے اوراق
مسجدِ عقبہ اور بیعتِ عقبہ
*مولانا حامد سراج عطّاری مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ جون 2025ء
عربی میں”عَقَبَۃ“ گھاٹی یعنی پہاڑی گزرگاہ کو کہتے ہیں۔ عرب کی سرزمین مختلف عقبات(یعنی گھاٹیوں) سے بھری پڑی ہے۔ انہی میں ایک عقبہ ایسی ہے جس کے واقعات نے اس کی اہمیت کو ایسا دوچند کیا ہے کہ آج اس کے بغیر اسلامی تاریخ نامکمل ہے۔ یہ وہی عقبہ ہے جہاں مدینے کے چند خوش بختوں نے اسلام کے لئے جان کی بازی لگانے پر دو دفعہ بیعت کی تھی۔ انہی دو بیعتوں کی برکت سے عرب ہی نہیں پوری انسانیت کی قسمت چمک اٹھی۔ انہی بیعتوں کی برکت سے ایک ایسی صبح طلوع ہوئی جس نے کائنات کے ذرے ذرے کو جگمگا دیا۔
عقبہ کا محلِ وقوع:
وہ گھاٹی جہاں بیعت ہوئی مکہ سے تقریباً دو میل کے فاصلے پر جبلِ ثبیر میں واقع تھی۔ جبلِ ثبیر مکہ شریف میں آٹھ پہاڑوں کا مجموعہ تھا۔ پہلے یہاں ایک ٹیلہ تھا جس کے پاس ہی یہ گھاٹی تھی۔ اسی ٹیلے کی ہمسائیگی میں جمرہ واقع ہے جہاں ایامِ حج میں رمی کی جاتی ہے۔ یہی وہ تاریخ ساز مقام ہے جہاں انصار کے کچھ افراد خیمہ زن تھے کہ جب ان کے مقدر کا ستارہ چمکا۔ آج کل اس مقام پر مسجدِ عقبہ تعمیر ہے، اسے مسجدِ بیعہ بھی کہتے ہیں۔ یہ مسجد مکہ سے مِنیٰ جاتے ہوئے بائیں جانب پڑتی ہے۔ خیال رہے کہ یہ مسجد اتنے ہی رقبے پر تعمیر ہے جس پر مدینہ شریف کا قافلہ ٹھہرا ہوا تھا۔ یہ مستطیل شکل کی مسجد ہے جو پتھراور گچ (یعنی ایک مخصوص مسالے) سے بنائی گئی ہے۔ یہ مسجد دو دالانوں کامجموعہ ہے، دونوں پر چھت ہے۔([1])
عقبہ پر ماہتابِ رسالت:
یہ نبوت کے گیارہویں سال (621 عیسوی) کی بات ہے جب حج کے موسم میں عرب کے گوشے گوشے سے قافلے مکہ پہنچ رہے تھے۔ مصطفےٰ جانِ رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم حسبِ معمول قبائل کے پاس جا جا کر انہیں اسلام کی دعوت دے رہے تھے۔([2]) مختلف قبیلوں کو دعوت دیتے ہوئے نبیِ کریم اسی عقبہ کے پاس پہنچےتو وہاں بنو خزرج کے چھ افرادسے ملاقات ہوئی۔ تعارف کے بعد آپ نے ان سے فرمایا: کیا ہم بیٹھ کر کچھ بات کر لیں؟ وہ بخوشی آپ کی باتیں سننے کے لئے تیار ہو گئے۔ آپ نے انہیں اسلام کا تعارف کرایا اور قراٰنِ پاک کی چند آیات سنا کر انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔([3])
انصار کا قبولِ اسلام:
انصار خود مشرک تھے مگر یہودیوں سے میل جول کے سبب اتنا جانتے تھے کہ نبیِّ آخر الزّماں تشریف لانے والے ہیں۔ دراصل جب یہودیوں اور انصار کے درمیان کچھ ناراضی ہوتی تو یہودی انہیں دھمکیاں دیا کرتے کہ آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ظہورکے وقت ہم ان کے ساتھ مل کر تم سمیت سارے بت پرستوں کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیں گے۔([4]) حضور نبیِ کریم علیہ الصّلوٰۃُ والسّلام نے جب انہیں دعوتِ اسلام دی تو وہ آپس میں کہنے لگے: یہ وہی نبی معلوم ہوتے ہیں جن کی آمد کی دھمکیاں ہمیں یہودی دیتے رہتے ہیں۔ جلدی سے ان پر ایمان لے آؤ، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہودی ان پر ایمان لانے میں ہم سے پہل کر جائیں۔ چنانچہ ان سب نے دل و جان سے آپ کی دعوت قبول کر لی اور سب ہی مشرف باسلام ہوگئے۔([5])
بیعتِ عقبۂ اولیٰ:
اس مختصر قافلۂ عشق و محبت نے اپنے ہاں دین کی دعوت دینے اور آئندہ سال شرفِ نیاز حاصل کرنے کا وعدہ کیا اور دل و دماغ کو نورِ اسلام سے منور کر کے اپنے وطن واپس چلے گئے۔واپس جا کر انہوں نے تبلیغِ اسلام کی ایسی دھومیں مچائیں کہ مدینہ شریف کےکئی افراد ایمان لے آئے۔([6]) آنے والے حج میں حسبِ وعدہ یہ پھر سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اب کی بار ان کی تعداد بارہ تھی۔ان سب نے آپ کے دستِ بابرکت پر ان باتوں پر بیعت کی کہ شرک، چوری، بدکاری اور اپنی اولاد کو زندہ درگور کرنے سے بچیں گے اور کسی بھی نیک کام میں آپ کی نافرمانی نہیں کریں گے۔([7]) بارہ افراد کی اس بیعت کو ”بیعتِ عقبۂ اولیٰ“ کہا جاتا ہے۔
مدینے کے مبلغ:
نبیِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے تعلیم و تربیت اور تبلیغِ دین کے لئے ان کی درخواست پر حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہُ عنہ کو ان کے ساتھ روانہ فرمایا۔ حضرت مصعب کو مدینہ والے ”مُقْرِی“ یعنی معلم و استاذ کے لقب سے یاد کرتے تھے۔ اس وقت تک اوس و خزرج کے مابین دشمنی اور عداوت کی آگ بجھنے کو تھی لہٰذا حضرت مصعب کے پیچھے سب کے سب نماز پڑھ لیتے۔([8]) اسلام کی برکت سے ان پر کسی کو کوئی اعتراض نہ تھا۔ حضرت مصعب کی تبلیغِ دین کے لئے شبانہ روز کاوشوں نے خوب رنگ جمایا، مدینے کے نامور اور بڑے بڑے سردار اِن کی دل نشین اور دل پذیر گفتگو کے سامنے دل ہار بیٹھے اور دامنِ اسلام سے وابستہ ہو گئے۔ تھوڑے ہی عرصے میں وہاں کا کوئی قابلِ ذکر علاقہ ایسا نہ رہا جہاں کسی نہ کسی نے معرفتِ الٰہی کا جام نہ پی لیا ہو۔([9]) مدینے میں اسلام کے نام لیواؤں کی تعداد بڑھی تو انصار نے سوچا کہ اس دفعہ ہم حج کے موقع پر ایک زبردست وفد لے کر جائیں اور اللہ کے پیارے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے یہاں تشریف لانے کی عرض کریں۔
حج کا موسم آتے ہی حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہُ عنہ کی قیادت میں حاجیوں کا ایک قافلہ مکہ پاک کیلئے روانہ ہوا۔ اس میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ مدینہ کے کئی مشرک بھی تھے۔([10]) حضور علیہ الصّلوٰۃُ والسّلام سے ملاقات ہوئی اور طے پایا کہ اُسی مقامِ عقبہ پر ایامِ تشریق کی ایک شب کو میٹنگ رکھی جائے اور مکمل غور و فکر اور عہد وپیمان کے ساتھ فیصلے کیے جائیں گے۔([11]) بالآخر وہ رات آگئی، حضرت کعب بن مالک رضی اللہُ عنہ جو اس میٹنگ میں شریک تھے، ان کا بیان ہے: ہم حج سے فارغ ہو گئے اور جب وہ رات آئی تو ہم حسبِ دستور اپنی قوم کے ساتھ اپنے اپنے خیموں میں سو گئے، جب رات کا ایک تہائی (1/3) حصہ گزر گیا اور ہر طرف سناٹے نے ڈیرے ڈال دیئے تو ہم اپنے بستروں سے چپکے چپکے نکلے اور مخصوص گھاٹی میں جمع ہونے لگے، سب وہاں جمع ہوگئے، ہم72افراد تھے؛ 70مرد اور 2عورتیں۔ بالآخر آقا کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تشریف لے آئے، ان کے ساتھ حضرت عباس رضی اللہُ عنہ بھی تھے، جو ابھی ایمان نہیں لائے تھے مگر اپنے بھتیجے کے معاملات میں شریک رہنا چاہتے تھے۔ ابتدائی گفتگو کے بعد نبیِ کریم علیہ الصّلوٰۃُ والسّلام نے ہر حال میں اپنی اطاعت، معاونت اور راہِ خدا میں مال خرچ کرنے، امر بالمعروف و نہی عن المنکر کرنے، ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈرنے اور اپنا مکمل دفاع کرنے پر بیعت لی۔ بدلے میں انہیں جنت کی بشارت عطا فرمائی۔([12]) حضرت جابر رضی اللہُ عنہ اس دلکش اور حسین منظر کو یوں بیان کرتے ہیں:
فَقُمْنَا اِلَيْهِ رَجُلًا رَجُلًا يَاْخُذُ عَلَيْنَا بِشُرْطَةِ الْعَبَّاسِ، وَيُعْطِيْنَا عَلَى ذٰلِكَ الْجَنَّةَ
یعنی ہم ایک ایک کر کے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پاس جارہے تھے،
آپ حضرت عباس رضی اللہُ عنہ والی اُنھی شرائط کے مطابق ہم سے بیعت لیتے جا رہے تھے اور اس کے بدلے ہمیں جنت عطا فرماتے جارہے تھے۔([13]) حضرت جابر رضی اللہُ عنہ اپنے ان چند جملوں میں پوری امت کو عقیدہ بھی بتا رہے اور عقیدت بھی سکھا رہے ہیں۔ بیعت کا عمل مکمل ہو جانے کے بعد مصطفےٰ جانِ رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے انصار میں بارہ نقیب (سردار) مقرر فرمائے، نو خزرج اور تین اوس کے قبیلے سے۔([14]) پھر یہ تمام حضرات اپنے اپنے بستروں میں واپس چلے گئے۔ یہ وہ بیعت ہے جسے اسلامی تاریخ میں ”بیعتِ عقبۂ ثانیہ“ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ ذمہ دار شعبہ سیرت مصطفےٰ المدینۃ العلمیہ کراچی
Comments