Book Name:Naza aur Qabr Ki Sakhtian-1442
انجام بھی معلوم نہ ہو تو اسے ہنسی کیسے آسکتی ہے ، اس کا رونا کیسے تھم سکتا ہے۔ ([1])
اے عاشقانِ رسول! یہ اولیائے کرام ہیں ، ان کے دِن رات نیکیوں میں گزرا کرتے تھے ، یہ ہر وقت جنت میں لے جانے والے اعمال میں مَصْرُوف رہا کرتے تھے ، ان کی نیت سچی تھی ، یہ اخلاص والے تھے ، یہ ریاکاریوں سے بچنے والے تھے ، یہ خودپسندی ، تکبر ، حسد سے بچنے والے ، گناہ تو گناہ ، اخلاقاً ناپسندیدہ باتوں اور جائِز فضولیات سے بھی بچنے والے تھے اور ایک ہم ہیں ، نہ قبر کا خوف ، نہ قیامت کی فکر ، گُناہ میں ڈُوبے ہوئے ، نیکی نام کو نہیں اس پر مزید یہ کہ نہ ندامت ہے ، نہ احساس ، بَس غفلت... غفلت اور غفلت!
راہ پُر خار ہے ، کیا ہونا ہے؟ پاؤں افگار ہے ، کیا ہونا ہے؟
دِل کہ تیمار ہمارا کرتا آپ بیمار ہے ، کیا ہونا ہے؟([2])
یعنی دِل میں احساس آجاتا ، دِل خوف سے کانپ جاتا تو شاید گُنَاہوں کی بیماری سے جان چھوٹ جاتی مگر کیا کریں دِل تو خود ہی بیمار ہے ، کیا ہونا ہے؟
اے عاشقانِ رسول! اعلیٰ حضرت ، امامِ اہلسنت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے یہ طویل کلام لکھا :
راہ پُر خار ہے ، کیا ہونا ہے؟ پاؤں افگار ہے ، کیا ہونا ہے؟
اس میں نزع کی ، قبر کی ، قیامت کی اور پُل صراط کی منظر کشی کر کے ہم گنہگاروں کو جھنجھوڑتے ہوئے نصیحت فرمائی کہ غافلو! سوچو!اگر زندگی یوں ہی گناہوں میں گزرتی رہی ، اللہ پاک ناراض ہو گیا ، اس کے پیارے حبیب ، دلوں کے طبیب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم رُوٹھ گئے تو کیا ہونا ہے؟ پھر آخر میں ڈھارس بندھاتے ، گُناہ چھوڑ کر نیکیوں کی جانِب پلٹ آنے