Book Name:Mout Ki Yad Kay Fazail Shab e Qadr 1442
کے ڈکْرَانے(چِلّانے)کی آواز ہی آتی اور رَنگ مٹیالا ہوجاتا ہےگویا مٹی سے بنا تھا تو مرتے وقت بھی مٹی ظاہِر ہوتی ہے ، ہر رَگ سے رُوْح نکالی جاتی ہے ، جس کی وَجہ سے تکلیف جسم کے اَندر باہر ہرجگہ پھیل جاتی ہے ، آنکھوں کے ڈَھیلےاُوپر چڑھ جاتے ہیں ، ہونٹ سُوکھ جاتے ہیں ، زبان سکڑ جاتی ہے اور اُنگلیاں نیلی پڑجاتی ہیں ، جس بدن کی ہر ہررَگ سے رُوْح نکالی جاچکی ہو ، اس کی حالت مت پُوچھوکیونکہ اگر جِسْم کی ایک رَگ بھیکِھنچ جائے تو بہت زِیادَہ تکلیف ہوتی ہے۔ ذراغورتو کروکہ پوری رُوْح کو ایک رَگ سے نہیں بلکہ ہر ہررَگ سے نکالاجاتا ہے تو کس قَدر تکلیف ہوتی ہوگی؟اور پھر آہستہ آہستہ جسم کے ہر ہر حصّےپرموت طاری ہوتی ہے ، پہلےقدم ٹھنڈے پڑتے ہیں ، پھر پنڈلیاں اورپھررانیں ٹھنڈی پڑجاتی ہیں اور یوں جِسْم کے ہرہرحصّے کو سختی کے بعد پھر سختی اور تکلیف کے بعد پھر تکلیف کا سامنا کرناپڑتا ہے ، یہاں تک کہ رُوْح حلق تک کھینچ لی جاتی ہے ، یہی وہ وَقْت ہوتاہےجب مرنے والےکی اُمّیدیں دُنیا اور دُنیا والوں سے ختم ہوجاتی ہیں اور پھر حسرت و ندامت اسےچاروں جانب سے گھیر لیتی ہے۔
(احیاءالعلوم ، ۵ / ۵۱۱تا۵۱۲ ، مترجم ملتقطاً)
پیارے پیارے اسلامی بھائیو!ہماری دنیاوی اور اُخروی زندگی کے درمیان موت کی گھاٹی حائل ہے ، جس دن ہم نے یہ گھاٹی عبور کر لی کبھی واپسی نہ ہوگی۔ لہٰذا موت کی اس پُر خطر گھاٹی کو یاد رکھئے جسے ہر ایک نے پار کرنا ہے ، لہٰذااس سے غفلت اختیار نہ کیجئے۔ امیر اہلسنّتدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ اپنے رسالے “ ویران محل “ کے صفحہ نمبر 18 پر موت کوہمیشہ یادرکھنےکے مُتَعَلّق فرماتے ہیں :