Book Name:Mout Ki Yad Kay Fazail Shab e Qadr 1442
پیارے اسلامی بھائیو! آئیے اب صدقۂ فطر کے کچھ ضروری مسائل سنتے ہیں۔ صدقۂ فطر واجب ہے ، سرکارِمدینہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ایک شَخص کو حُکم دیا کہ جاکر مکہ مُعَظّمہ کے گلی کُوچوں میں اِعْلان کر دو ، “ صَدَ قَہِ فِطْر واجِب ہے۔ “ ( ترمذی ، ج۲ ، ص۱۵۱ ، حدیث۶۷۴)
حضرت اِبنِ عباّس رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا فرماتے ہیں : نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے صدقہ فطر مقرر فرمایا تاکہ فُضُول اور بَیہُودہ کلام سے روزوں کی طَہارت (یعنی صفائی) ہوجائے۔ نِيز مَسَاکِین کی خُورِش (یعنی خواراک)بھی ہوجائے۔ (سنن ابی داو ، د ج۲ ، ص۱۵۸ ، حدیث۱۶۰۹)
حضرت اَنَس بِن مالِک رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کہتے ہیں سرکارِنامدار ، مدینے کے تاجدار صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں ، جب تک صَدَقَہِ فِطْر ادا نہیں کیا جاتا ، بندے کا روزہ زَمین و آسمان کے درمیان مُعلَّق (یعنی لٹکا ہوا) رہتاہے۔ (کنزالعُمّال ج۸ ، ص۲۵۳ ، حدیث۲۴۱۲۴)
صدقہ فطر کے حوالے سے چند اہم مسائل
صَدَقَہِ فِطْر ان تمام مُسلمان مَرْد و عورت پر واجِب ہے جو “ صاحِب نِصاب “ ہوں اور اُن کا نِصاب “ حاجاتِ اَصْلِیَّہ “ (یعنی ضروریاتِ زندگی سے)فارغ ہو۔ (عالمگیری ج۱ص۱۹۱)
جِس کے پاس ساڑھے سات تولے سونا یا ساڑھے باوَن تولہ چاندی یا ساڑھے بَاوَن تولہ چاندی کی رقم یا اتنی مالیت کامالِ تجارت ہو(اور یہ سب حاجاتِ اَصْلِیَّہ سے فارغِ ہوں) اُس کو صاحِبِ نِصاب کہا جاتا ہے ۔