Book Name:Mout Ki Yad Kay Fazail Shab e Qadr 1442
کے ناکے سے نکالی جارہی ہے ، گویا میرے پیٹ میں ایک کانٹے دار ٹہنی ہے اور آسمان ، زمین سے مل گیا ہے اور میں ان دونوں کے درمیان ہوں۔ (مستدرک ، کتاب معرفة الصحابة ، باب وصف الموت فی حالة النزع ، ۵ / ۵۶۹ ، حدیث۵۹۶۹)
موت ایسے جیسے زندہ چڑیا کو بھوننا
منقول ہے : حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام سے اللہکریم نے پوچھا : موت کو کیسا پایا ؟ آپ عَلَیْہِ السَّلَامنے جواب دیا : موت اس چڑیا کی طرح ہےجسے زندہ کڑاہی میں بھُونا جار ہا ہو ، اب نہ تووہ مرے کہ راحت پائے اور نہ نجات پائے کہ اُڑ جائے۔ (احیاء علوم الدین ، کتاب الذکروالموت ومابعدھا ، باب ثالث فی سکرات الموت۔ ۔ ۔ الخ ، ۵ / ۲۱۰)
ایک بُزرگ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہکے بارے میں آتاہے : وہ بیماروں کی عِیادَت بہت زِیادَہ کیا کرتے اور پوچھتے : تم موت کوکیساپاتے ہو؟جب ان کا آخری وَقْت آیاتو کسی نے پُوچھا : آپ موت کو کیساپاتے ہیں؟ فرمایا : گویا آسمانوں کو زمین سے مِلادِیاگیاہےاور میری رُوح سُوئی برابر سُوراخ سے نکل رہی ہے۔ (احیاء العلوم ، ۵ / ۵۱۷)
صَلُّو ْا عَلَی الْحَبیب! صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد
پىارے پىارے اسلامى بھائىو!ہم موت کی تلخی کے بارے میں سُن رہےتھے ، یقیناً گناہوں کے بڑھتے ہوئے سیلاب اور بُری صحبتوں نے ہمیں فکرِ آخرت اور فکرِ موت سے بہت دُور کردیا ہے ، ہمارے بزرگوں کایہ طریقہ تھا کہ وہ پاکیزہ لوگ کثرت سے موت کو یاد کرتے تھے ، ہمیں بھی موت کو یاد کرنے کی عادت