Book Name:Fazail-e-Makkah & Hajj
اس آیت سے مَعْلُوم ہوا؛ کعبہ شریف دُنیا کی سب سے پہلی عِبَادت گاہ ہے۔
بلکہ صحابِی اِبْنِ صحابِی ، حضرت اِبْنِ عَبّاس رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ نے ایک مقام پر کعبہ شریف کو “ سُرَّۃُ الْاَرْض “ فرمایا ہے۔([1]) “ سُرَّۃُ الْاَرْض “ کا معنی ہے : زمین کی ناف۔ مطلب یہ کہ زمین کے جس ٹکڑے پر کعبہ شریف مَوْجُود ہے ، یہ ٹکڑا سب سے پہلے پیدا کیا گیا اور یہیں سے تمام زمین پھیلائی گئی۔
اَصْل میں جب یہ زمین نہیں تھی ، آسمان بھی نہیں تھا ، عَرْشِ الٰہی پانی پر تھا ، اللہ پاک نے زَوْر دار ہوا بھیجی ، جس سے پانی میں بڑی لہریں پیدا ہوئیں ، اِن لہروں سے پانی پر جھاگ بنی ، پھر اس سے بُخَارات اُٹھے ، اِنہی بُخارات کو اللہ پاک نے بلند فرمایا اور اِن سے آسمان بنایا۔ اسی لئے اللہ پاک نے آسمان کو “ دُھواں “ فرمایا ہے ، ارشاد ہوتا ہے :
وَ هِیَ دُخَانٌ (پارہ24 ، سورۃحٰمٰ السجدۃ : 11)
ترجمہ کنزُ العِرفان : اور آسمان دھواں تھا۔
پھر پانی پر جو جھاگ بنی تھی ، اللہ پاک نے اس جھاگ کو پھیلا دیا ، اس سے ہماری یہ زمین بنی۔ اس طرح پہلے زمین بنائی گئی ، پھر آسمان بنائے گئے ، پھر آسمانوں کی تخلیق مکمل ہونے کے بعد زمین کو پھیلا دیا گیا ، اللہ پاک اِرْشاد فرماتا ہے :
وَ الْاَرْضَ بَعْدَ ذٰلِكَ دَحٰىهَاؕ(۳۰) (پارہ30 ، سورۃالنازعات : 30)
ترجمہ کنزُ العِرفان : اور اس کے بعد زمین پھیلائی
حضرت عبد اللہ بن عَبَّاس رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا سے رِوَایت ہے کہ جس مقام پر یہ جھاگ بنی تھی ، یہ مقام کوئی اَوْر نہیں بلکہ زمین کا وہی مُبَارَک ٹکڑا تھا ، جہاں آج کعبہ شریف