Book Name:Molana Naqi Ali Khan ki 3 Karamat
مولانا نقی علی خان رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ کے پاکیزہ دِل کے ذریعے ہی اعلیٰ حضرت رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ کے دِل میں اُترا تھا۔ ([1])
جان ہے عشق مصطفےٰ ، روز فُزوں کرے خُدا جس کو ہو دَرْد کا مزہ ، نازِ دَوا اُٹھائے کیوں([2])
وضاحت : عشقِ مصطفےٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہماری جان ہے ، اللہ کرے کہ یہ عشق کبھی کم نہ ہو ، بڑھتا ہی رہے کہ جسے دَرْدِ عِشق میں مزہ آتا ہے ، وہ اس درد کی دوا نہیں لیتا۔
صَلُّوْا عَلَی الْحَبیب! صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی مُحَمَّد
عاشقِ رسول کا سَفرِ مدینہ (حکایت)
1295 ہجری کی بات ہے ، شوَّال کا مہینہ تھا ، والِدِ اعلیٰ حضرت مولانا نقی علی خان رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ شدید بیمار ہوئے ، جسم کی ظاہِری طاقت میں کافِی کمزوری آگئی ، اسی حالت میں ایک روز آپ رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ آرام فرما تھے ، ظاہِری آنکھیں بند تھیں مگر قسمت بیدار تھی ، دِل کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں ، مدنی آقا ، مکی آقا ، بگڑی بنانے والے آقا ، دو جہاں کے داتا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے کرم فرمایا ، اپنے سچے عاشق کے خواب میں تشریف لے آئے
سَرِ بالیں ، انہیں رَحْمت کی ادا لا ئی ہے حال بگڑا ہے تو بیمار کی بَن آئی ہے
سرکارِ نامدار ، مکی مدنی تاجدار صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنے سچے عاشق کو حکم فرمایا کہ مدینے چلے آؤ...! بس اب کیا تھا ، مولانا نقی علی خان رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ کی آنکھ کھلی ، اگرچہ طبیعت ناساز تھی ، ظاہری جسمانی طاقت میں کافِی کمزوری تھی مگر مدنی آقا ، محبوبِ خُدا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم حکم فرما چکے تھے ، چنانچہ مولانا نقی علی خان رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فوراً حج اور