Book Name:Quran Aur Farooq e Azam

حضرت عمر رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کی زبان مبارک سے سُنا ہے کہ تُو بہت اچھا انسان ہے۔ ([1])

رہے تیری عطا سے یا خُدا تیری عنایت سے            ہمارے ہاتھ میں دامن سدا فاروقِ اعظم کا

بھٹک سکتا نہیں ہر گز کبھی وہ سیدھے رستے سے  کرم جس بخت ور پر ہو گیا فاروقِ اعظم کا([2])

صَلُّوْا عَلَی الْحَبیب!                                               صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی مُحَمَّد

دِیْن ہم تک رِوایت سے پہنچا ہے

پیارے اسلامی بھائیو!   ہم نے ابھی مُوَافقاتِ عمر رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کے متعلق سُنا ، بعض نادان فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کی ان موافقات کا اِنْکار کرتے ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ موافقاتِ عمر کو ماننے سے خَتْمِ نبوت کا اِنْکار لازِم آتا ہے ، مثلاً اگر ہم مانتے ہیں کہ ایک جملہ جو حضرت عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کی زبان سے نکلا تھا ، پھر وہی جملہ  قرآنی آیت بَن کر نازِل ہوا تو اس کا مطلب یہ نکلے گا کہ حضرت عمر رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ پر بھی مَعَاذَ اللہ! وَحْی نازِل ہوتی تھی اور یہ خَتْمِ نبوت کا اِنْکار ہے ، لہٰذا مُوَافقاتِ عمر رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کو ماننا درست نہیں۔

 یہ اِن نادانوں کا اعتراض ہے۔ اس اعتراض کے جواب کے طَور پر دو مدنی پھول ذہن نشین کیجئے! *پہلا مدنی پھول تو یہ یاد رکھنے کا ہے کہ “ دِیْن “ ہم تک عقل سے نہیں ، دِین روایت سے پہنچا ہے۔ یعنی جو کچھ قرآنِ کریم میں ہے ، جو کچھ پیارے آقا ، مکی مدنی مصطفےٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  نے فرمایا ، اسے ماننے کا نام دین ہے ، اب پیارے آقا ، رسولِ خُدا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  نے جو کچھ فرمایا ، یہ سب کچھ صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان نے سُنا ، دیکھا اورآگے بیان کیا ، پھر صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان سے تابِعِیْن نے سُنا ، تابِعِین سے تَبَع تابِعِیْن نے سُنا ،


 

 



[1]...مستدرک ، کتاب : معرفۃ الصحابۃ ، جلد : 4 ، صفحہ : 40 ، حدیث : 4557۔

[2]...وسائِلِ بخشش ، صفحہ : 526۔