Book Name:Azadi Kisay Kehtay Hain
بھی چلتے رہے ، اس وقت ڈاکٹر اقبال نے ایک رُباعی لکھی([1]) اس کے آخری شعر میں لکھا :
بَمُصْطَفٰے بَرَسَاں خَوَیْش رَا کہ دِیْں ھَمَہ اُوسْت اَگَر بَہ اُوْ نَہ رَسِیْدِی تَمَام بُوْلَھَبِیْ اَسْت([2])
وضاحت : یعنی خود کو کھینچ کر اپنے آقا ، محمد مصطفےٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے قدموں میں ڈال دو ، یہی غُلامی اَصْل دین ہے ، اگر یہ غُلامی نہ کر سکو تو یہ دِین داری نہیں ، بلکہ اَبُولہب کافِر کی پیروی ہے۔
یہ ہے آزادی۔ خُود کو کھینچ کر مصطفےٰ جانِ رحمت ، شمعِ بزمِ ہدایت صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے قدموں میں ڈال دینا ، اپنی مرضی ، اپنی خواہش ، اپنی تمنّا سب فنا کر کے سچے دل سے “ غلامئ مصطفےٰ “ کر لینا ، یہ اَصْل آزادی ہے ، اسی آزادی کی بنیاد پر پاکستان بنایا گیا مگر کیا ہم یہ غُلامی کر رہے ہیں؟ آہ! 74 سال گزر گئے ، ہم نے یہ غُلامی نہ کی ، اُلٹا ہم نے آزادی کا مفہوم ہی بدل دیا ، ہم نے بےراہ رَوِی کو آزادی سمجھ لیا ، ہم نے بےلگام ہو جانے کو آزادی سمجھ لیا ، عریانی کا ، فحاشی کا ، فیشن پرستی کا نام آزادی رکھ دیا۔ یہ ہر گز آزادی نہیں ہے ، یہ تو الٹا نفس و شیطان کی غُلامی ہے۔ شیطان سب سے بڑا کافِر ہے ، کافِروں کی حکومت سے چُھوٹ گئے تھے ، پھر خود کو سب سے بڑے کافِر یعنی شیطان کی غُلامی میں سونپ دیا اور اس غُلامی کا نام آزادی رکھ دیا ، کیا یہ آزادی ہے؟ نہیں یہ اَصْل میں غُلامی ہے۔
یہ بات ہمیشہ کے لئے ذہن میں بٹھا لی جائے ، آزادی صِرْف اور صِرْف اللہ پاک کی بندگی سے اور اِطَاعتِ مصطفےٰ سے ملتی ہے۔ اس کے بغیر دُنیا میں کہیں آزادی نہیں ملے گی ، جو دُنیا کے پیچھے بھاگتا ہے ، وہ دُنیا کا غُلام۔ جو مال کے پیچھے بھاگتا ہے ، وہ مال کا غُلام۔ جو حُسْن کا شیدائی ہے ، وہ حُسْن کا غُلام۔ جو مقام و مرتبے کے پیچھے ، منصب و عہدے کے پیچھے بھاگتا