Book Name:Imam Pak Aur Yazeed Paleed
امام حُسَیْن رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کا یہ ایک جملہ سانحۂ کربلا کا گویا مَغْز ہے ، امام حُسَیْن رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ نے میدانِ کربلا میں قربانیاں کیوں پیش کیں؟ بھوک پیاس کیوں برداشت کی گئی؟ اس لئے کہ امام حُسَیْن رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فرض شناس تھے ، امام حُسَیْن رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ اپنے منصب کو جانتے تھے ، امام حُسَیْن رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ اپنی ذِمَّہ داریوں کو سمجھتے تھے ، امام حُسَیْن رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کو اپنی ذِمَّہ داری کا اِحْسَاس تھا ، امام حُسَیْن رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کو اپنے اس فرضِ منصبی کی ادائیگی کے لئے اپنے نانا کا شہر مدینہ منورہ چھوڑنا پڑا ، اس فرض کی ادائیگی کے لئے امام حُسَیْن رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ نے مکہ مکرمہ چھوڑا ، اسی مقصد کی ادائیگی کے لئے امام حُسَیْن رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کوفے کی طرف روانہ ہوئے ، کربلا کے میدان میں امام حُسَیْن رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کو گھیرا گیا ، آپ فرض سے پیچھے نہ ہٹے ، پانی بند کر دیا گیا ، امام حُسَیْن رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فرض سے پیچھے نہ ہٹے ، ہزاروں کی فوج لا کر کھڑی کر دی گئی ، امام حُسَیْن رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فرض سے پیچھے نہ ہٹے ، دُنیا کے ، مال و دولت کا لالچ دیا گیا ، امام حُسَیْن رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فرض سے پیچھے نہ ہٹے ، ڈرایا گیا ، امام حُسَیْن رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فرض سے پیچھے نہ ہٹے ، آپ کے بھائی ، بھتیجے ، بیٹے آنکھوں کے سامنے شہید کر دئیے گئے ، امام حُسَیْن رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فرض سے پیچھے نہ ہٹے ، ننھے علی اَصْغر رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کے گلے پر تیر چلایا گیا ، امام حُسَیْن رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فرض سے پیچھے نہ ہٹے ، آخِر قربانیاں دیتے دیتے ، امام حُسَیْن رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ خود بھی شہید ہو گئے مگر آپ اپنے فرض سے پیچھے نہ ہٹے اور رہتی دُنیا تک کے لئے اپنے غُلاموں کو یہ دَرْس دے دیا کہ بات جب فرض کی آجائے ، بات جب ذِمَّہ داریوں کی آجائے ، اس وقت بہانے نہیں بنائے جاتے ، اس وقت قربانیاں دی جاتی ہیں۔
اے عاشقانِ امام حُسَیْن! اب ذرا اپنے آپ پر بھی غور کیجئے! ہمارے معاشرے میں ایک تعداد ہے ایسے لوگوں کی جو بہانے بنا کر فرض کی ادائیگی سے دُور رہتے ہیں۔ کئی ایسے ہیں جنہیں نماز کی دعوت دی جائے تو بڑی بےشرمی کے ساتھ کہہ دیتے ہیں : میرے کپڑے صاف نہیں ہیں۔ کوئی کہتا ہے : ابھی مَصْرُوف ہوں۔ کوئی کہتا ہے : مولانا! حلال روزی کمانا بھی تو عِبَادت ہے۔ رمضان کے روزے نہیں رکھتے ، کیوں؟ اس لئے کہ روزہ رکھ کر کام نہیں ہوتا ، حج فرض ہونے کے باوُجود حج نہیں کرتے ، کیوں؟ اس